اس کے بعد عیسیٰ ابن مریم تشریف لائے اور انہوں نے بنی اسرائیل سے کہا :
یبنی اسراء یل .................... الیکم (16 : 6) ” اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں “۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں اللہ ہوں ، اور نہ یہ کہا میں اللہ کا بیٹا ہوں ، نہ یہ کہا کہ وہ اللہ کے اقانیم میں سے ایک اقنوم ہیں۔
مصدقالما .................... احمد (16 : 6) ” تصدیق کرنے والا اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے ، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا “۔ یوں صریح الفاظ میں رسالت کی تصویر پیش کی جاتی ہے کہ سلسلہ رسالت ایک ہی ہے اور ہر رسول کے بعد جو دوسرا رسول آتا ہے وہ سابقہ رسول کی رسالت کی تصدیق کرتا ہے۔ یوں میں ایک ہی رسالت کے حلقے زمین و آسمان کے درمیان اور زمین کی طویل تاریخ کے اوپر پھیلے ہوئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہی تصویر اللہ کے منہاج حق کے لائق ہے۔ یہ ایک ہی دین اور ایک ہی منہاج ہے۔ اور اس شکل و صورت مختلف لوگوں کے لئے مختلف رہی ہے کیونکہ انسان مختلف ادوار میں علم ، تجربات اور استعداد کے لحاظ سے مختلف رہا ، اس لئے شریعت کی شکل بھی مختلف رہی ہے ، لیکن نبی آخرالزمان ﷺ کو عقلی اعتبار سے ایک بالغ ہمت دی گئی ، اس لئے آپ کو ایک آخری اور مکمل شریعت دی گئی۔ ایک پختہ عقل امت کو مکمل شریعت دی گئی۔ اس دین نے انسانی عقل سے اپیل کی۔ اور عقل کے کام کے لئے ایک وسیع دائرہ عمل چھوڑ دیا تاکہ اس کے اندر وہ کام کرے ، لیکن پوری انسانیت کے لئے ایک دائرہ کار بہرحال متعین کردیا گیا تاکہ اس کے اندر وہ کام کرے اور اس دائرے کا تعین انسان کی قوت اور استعداد کو دیکھتے ہوئے خالق کائنات نے خود کیا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے انجیل میں احمد کی پیشن گوئی موجود تھی۔ آج جو اناجیل رائج ہیں ان میں ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہوگی ہے کہ موجودہ اناجیل ، بعد کے ادوار میں لکھی گئی ہیں ، اور جن حالات میں لکھی گئی ہیں وہ بھی معلوم ہیں۔
قرآن کریم جب جزیرة العرب میں نازل ہوا اور یہودو نصاریٰ نے بھی پڑھا۔ جس میں تھا۔
النبی الامی ........................ وانانجیل ” نبی امی جسے وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں “۔ تو ان میں سے بعض مخلص علماء نے اس کا اقرار بھی کیا جیسا کہ عبداللہ ابن سلام نے۔ اس لئے کہ یہ لوگ اس آیت کے چھپانے کا سخت اہتمام کرتے تھے۔
پھر تاریخی روایات متواتر ہیں کہ یہودی اس نبی آخرالزمان ﷺ کا انتظار کرتے تھے اور وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اس کا زمانہ قریب آگیا ہے ۔ اسی طرح نصاریٰ میں سے بعض اہل توحید جو جزیرة العرب میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے موجود تھے ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ لیکن یہودی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ یہ نبی آخرالزمان ان میں سے ہوگا جب اللہ نے اسے حضرت ابراہیم کی اولاد کی دوسری شاخ بنی اسماعیل سے بھیج دیا ، انہوں نے اس کو بہت ناپسند کیا۔ اور اس کے ساتھ جنگ شروع کردی۔
بہرحال نص قرآنی بذات خود اس معاملے میں قطعی ہے۔ اور قرآن ہی ایک معتمد علیہ ذریعہ ہے ، جس کے اندر کوئی تحریف نہیں ہوتی ، جبکہ تورات اور انجیل کا حال تو سب کو معلوم ہے۔
چناچہ اکثر تفسیری اقوال کے مطابق درج ذیل آیات اس بارے میں ہیں کہ یہود ونصاریٰ نے اس پیغمبر کا استقبال کس طرح کیا جس کی بشارت سے خود ان کی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ان آیات میں ان کے رویے کی سخت مذمت کی گئی ، کہ انہوں نے اس دین کا استقبال کرنے کے بجائے ، اس کے خلاف سازشیں شروع کردیں حالانکہ اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہ دین تمام ادیان پر غالب ہوگا اور یہی آخری دین ہے۔
فلما جاء ھم ........................ المشرکون (9) (16 : 6 تا 9) ” مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح دھوکا ہے۔ اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے ، حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سراطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جارہی ہو ؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو “۔
بنی اسرائیل اس دین جدید کے مقابلے میں صف آرا ہوگئے۔ دشمنی ، سازشیں اور گمراہ کن پروپیگنڈا شروع کردیا اور ہر قسم کے اوچھے ہتھیار اس کے مقابلے میں لے کر آگئے اور اس دین کے خلاف انہوں نے جو جنگ شروع کی وہ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے سب سے پہلے اس پر یہ الزام لگایا۔
فلما جاء ھم ................ مبین (16 : 6) ” جب وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح جادو ہے۔ “ جس طرح ان لوگوں نے کہا جو کتابوں کو نہ جانتے تھے ، نہ بشارتوں کو جانتے تھے۔ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کا رویہ ایک ہی جیسا رہا۔ بلکہ اہل کتاب اسلامی محاذ کے اندر بھی سازشیں شروع کردیں۔ مہاجرین اور انصار کو لڑانے کی کوشش کی۔ اور انصار کے دو قبائل اوس اور خزرج کو لڑانے کی کوشش کی۔ کبھی انہوں نے مشرکین مکہ سے ایکا کرکے اس نئے دین کے خلاف جنگ کی اور کبھی انہوں نے منافقین مدینہ کے ساتھ اتحاد کے اس کے خلاف لڑنے کی سعی کی۔ اور انہوں نے مدینہ اور عالم اسلام پر ہر حملہ آور کی مدد کی۔ مثلاً غزوہ احزاب میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے جھوٹے الزامات لگا کر بھی اس میں حصہ لیا۔ جبکہ افک کے واقعہ کو انہوں نے عبداللہ ابن ابی ابن سلول کے ذریعہ خوب اچھالا اور فتنہ عثمان میں بھی انہوں نے عبداللہ ابن سبا کے ذریعہ کام کیا۔ پھر سیرت کی کتابوں میں انہوں نے منظم سازش کے ذریعہ اسرائیلیات کو داخل کیا۔ جب وہ قرآن کے اندر جعلی آیات داخل ہونے سے عاجز ہوگئے تو انہوں نے تفسیر ، سیرت اور احادیث کے اندر وضعی احادیث داخل کرنے کی سعی تھی۔
یہ جنگ اسلام کے خلاف ، آج تک ختم نہیں ہوئی۔ آج تک عالمی یہودیت ، عالمی عیسائیت اور صیہونیت اسلام کے خلاف رات دن سازشوں میں مصروف ہے۔ یہ ہر طرف سے اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں اور لوگوں کو بھی اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس جنگ میں چودہ سو سال سے نہ جنگ بندی ہوئی ، نہ صلح ہوئی ہے ، کسی دور میں بھی نہیں۔ مشرق میں جاکر انہوں نے صلیبی جنگیں لڑیں۔ مغرب میں اندلس میں انہوں نے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیا۔ اور شرق اوسط میں انہوں نے ہمیشہ اسلامی خلافت کے خلاف جنگ کی۔ یہاں تک کہ ترکی کی خلافت کو انہوں نے تباہ کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد بھی ان کی یہ جنگ ختم نہ ہوئی اور انہوں نے جعلی ” ہیرو “ اسلام اور عالم اسلام کے لئے پیدا کیے اور ان کے ذریعہ انہوں نے اسلام کے خلاف اپنی انتقامی پیاس کو بجھایا۔ جب انہوں نے اسلام کی آخری نشانی خلافت اسلامیہ ترکیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہا تو انہوں نے ترکی میں ایک عظیم ہیرو پیدا کیا اور اس کے اندر اس قدر ہوا بھری کہ وہ بہت بڑا زھیم بن گیا۔ اس کے بعد اس کے مقابلے میں اتحادیوں کی فوجوں نے پسپائی اختیار کی ، جنہوں نے آستانہ کو فتح کرلیا تھا تاکہ اس شخص کو بہت بڑا فاتح بنا کر پیش کیا جاسکے۔ ایک ایسا فاتح جو خلافت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرسکے۔ اس نے ترکی کو عالم اسلام سے جدا کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ ترکی لادینی ریاست ہے۔ اس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب بھی یہودی اسلام پر ضرب لگانا چاہیں وہ عالم اسلام کے لئے اس قسم کے لیڈر پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی وہ صحیح اسلامی تحریکات پر ضرب لگاتے ہیں ، وہ مسلمان ممالک میں اس قسم کے لیڈر پیدا کرتے ہیں ان کے ذریعہ یہ ان ممالک میں اسلامی حمیت اور اسلامی عصبیت کے علاوہ ہر عصبیت پیدا کرتے ہیں ، اسلامی جھنڈوں کے علاوہ ہر جھنڈا بلند کرتے ہیں۔
0%