undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یا یھا الذین ................................ المﺅمنین (31) (61 : 01 تا 31)

” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، میں بتاﺅں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ؟ ایمان لاﺅ اللہ اور اس کے رسول پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا ، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو ، وہ بھی تمہیں دے گا ، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو “۔

ذرا انداز تعبیر پر غور فرمائیں۔ بعض چیزوں کو باہم ملایا گیا ، بعض کو اپنی جگہ سے دور رکھا گیا ہے ۔ استفہام اور جواب استفہام کے درمیان ایک فاصلہ رکھا گیا ہے۔ بعض چیزوں کو مقدم کیا گیا ہے اور بعض کو موخر کردیا گیا ہے ، ان سب امور کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ پکار اور یہ آواز اچھی طرح لوگوں کے دلوں کے اندر اتر جائے اور اسالیب تعبیر کے تمام ذرائع استعمال کرکے بات کو دلوں تک بلکہ دلوں کی تہوں تک اتارا جائے۔

دیکھئے پکار کا آغاز۔

یایھا الذین امنوا (16 : 01) سے ہے ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اور اس کے بعد اللہ ان سے پوچھتا ہے کہبتاﺅں تمہیں ایسی تجارت ؟ اس سے سامعین کے دلوں میں بھر پور شوق پیدا کیا جاتا ہے۔

ھل ادلکم ........................ عذاب الیم (16 : 01) ” میں بتاﺅں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ؟ “

اب کون ہے جو اس قسم کی تجارت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے بےتاب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں آیت ختم ہوجاتی ہے اور درمیان میں فصل آجاتی ہے۔ استفہام اور جواب استفہام کے درمیان آیت ختم ہوکر وقف آجاتا ہے اور سامع کے دل میں اگلی آیت سننے کے لئے بےتابی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد جواب آتا ہے جبکہ سامعین بےتاب تھے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%