بندہ اور خدا کا تعلق ایک زندہ تعلق ہے جو نفسیات کی سطح پر قائم ہوتاہے۔ یہ تمام تر ایک اندرونی واقعہ ہے۔ مگر مذہب کے زوال کے زمانہ میں جب یہ اندرونی تعلق کمزور پڑتا ہے تو لوگوں میں یہ ذہن ابھرتا ہے کہ اس کو خارجی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھیں میں سے دنیوی لذتوں کو چھوڑنا بھی ہے جس کو رہبانیت کہاجاتاہے۔ یہ خیال کرلیا جاتا ہے کہ مادی چیزوں سے دوری آدمی کو خدا سے قریب کرنے کا باعث بنے گی۔ صحابہ میں سے بعض افراد اس قسم کے رہبانی خیالات سے متاثر ہوئے۔ انھوںنے ارادہ کیا کہ وہ گوشت نہ کھائیں۔ راتوں کونہ سوئیں۔ اپنے آپ کو خصی کرالیں اور گھروں کو چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار کرلیں۔ حتی کہ بعض نے اس کی قسمیں بھی کھالیں۔ اس پر انھیں منع کیاگیا اور کہاگیا کہ حلال کو حرام کرنے سے کوئی شخص خدا کی قربت حاصل نہیں کرسکتا۔ آدمی جو کچھ حاصل کرتا ہے فطرت کے حدود میں رہ کر حاصل کرتاہے، نہ کہ اس سے آزاد ہو کر۔
اسلام کے مطابق اصل ’’رہبانیت‘‘ تقویٰ اور شکر ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ اس کے اندر یہ خواہش ابھرتی ہے کہ ایک حرام چیز سے لذت حاصل کرے مگر وہ خدا کے ڈر سے رُک جاتاہے۔ کسی کے اوپر غصہ آجاتا ہے اور وہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کو تہس نہس کردے مگر خدا کا ڈر اسے اپنے بھائی کے خلاف تخریبی کارروائی سے روک دیتا ہے۔ اس کا دل کہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے مگر خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کو مجبور کرتاہے کہ وہ اپنے کو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنالے۔ یہی معاملہ شکر کا ہے۔ آدمی کو کوئی دنیوی چیز حاصل ہوتی ہے۔ صحت، دولت، عہدہ، سازوسامان، مقبولیت کا کوئی حصہ اس کو ملتاہے۔ مگر وہ خود پسندی اور گھمنڈ میں مبتلا نہیںہوتا بلکہ ہر چیز کو خدا کا عطیہ سمجھ کر اس کے احسان کا اعتراف کرتاہے۔ وہ تواضع اور ممنونیت کے جذبات میں ڈھل جاتاہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو خدا سے جوڑتی ہیں۔ خدا سے ڈرنے اور اس کا شکر ادا کرنے سے آدمی اس کی قربت حاصل کرتاہے۔ مادی چیزوں سے دوری یقیناً مطلوب ہے۔ مگر وہ ذہنی وقلبی دوري ہے، نہ کہ جسمانی دوری۔