You are reading a tafsir for the group of verses 5:116 to 5:118
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 116 تا 118۔

اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے سامنے کن عقائد کی تبلیغ کرتے رہے ہیں ۔ لیکن اس خوفناک دن میں یہ عظیم جواب طلبی اور پھر ایسے شخص سے جو ذمہ دار بھی نہیں ہے ‘ اس لئے کہ گئی کہ اس صالح بندے اور ان کی والدہ کو جو لوگ الہ تصور کرتے تھے ‘ ان کا یہ پورا موقف اچھی طرح واضح ہوجائے اور وہ خوب شرمندہ ہو۔

یہ اس قدر عظیم جسارت ہے کہ کوئی عام اور معقول انسان اس قسم کا کوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ خود الہ ہے ۔ جبکہ وہ جانتا ہو کہ وہ بندہ ہے ۔ ایک رسول اس قسم کا دعوی کب کرسکتا ہے اور پھر اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا رسول ۔ حالانکہ اللہ نے رسالت سے پہلے اور رسالت کے بعد اسے معجزات اور مقامات عطا کئے تھے اور ان پر عظیم انعامات کئے تھے اور اعزاز بخشے تھے ۔ ایسے رسول کب ایسا دعوی کرسکتے ہیں ۔ ایک صالح اور راہ راست پر گامزن رسول ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت کی طرف سے نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ عاجزانہ جواب آتا ہے ۔ نہایت ہی حمد وثنا کے ساتھ (آیت) ” سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِحَقٍّ (5 : 116) ” سبحان اللہ ‘ میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ۔ “ اس طرح حضرت جلدی سے جواب دے دیتے ہیں کہ میں نے مطلقا یہ بات نہیں کہی ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی برات پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور اپنی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ کے خصائص الوہیت اور بندے کے شایان عبودیت کے افعال بتاتے ہیں ۔

(آیت) ” إِن کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (116)

” اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے ‘ آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں “۔

اس قدر تسبیح اور پاکی بیان کرنے کے بعد اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ جرات کرتے ہیں کہ وہ کوئی مثبت بات کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ہر گز نہیں ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ بلکہ انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور تم بھی سب صرف اللہ ہی کی بندگی کرو۔

(آیت) ” مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِیْ بِہِ أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ (5 : 117)

” میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا ‘ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ “ اور آپ (علیہ السلام) یہ فرماتے ہیں کہ میں تو ان پر نگران صرف اس وقت تک کے لئے تھا جب میں ان کے سامنے تھا ۔ لیکن اپنی وفات کے بعد میں نگران نہ تھا ۔ قرآن کی ظاہری آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وفات دی اور پھر اپنی طرف اٹھا لیا جب کہ بعض آثار میں یہ آتا ہے کہ آپ اللہ کے ہاں زندہ ہیں ۔ میرے خیال میں دونوں قسم کے نصوص میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ زمین کی زندگی سے ان کا قطع تعلق ہوگیا ہو اور انہیں اٹھا لیا گیا ہو اور یہ بھی درست ہے کہ انہیں زندہ حالت میں اٹھا لیا گیا ہو کیونکہ شہداء بھی تو اللہ کے ہاں زندہ ہوتے ہیں اگرچہ دنیا سے ان کی زندگی کٹ جاتی ہے اگرچہ شہداء کی زندگی کی نوعیت کا ہمیں تفصیلی علم نہیں ہے ۔ یہی صورت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میری وفات کے بعد مجھے علم نہ تھا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ؟

(آیت) ” وَکُنتُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْْتَنِیْ کُنتَ أَنتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْْہِمْ وَأَنتَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْدٌ(117)

” میں اسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا ۔ جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگران ہیں ۔ “

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتے ہیں کہ آپ چاہیں تو سزا دیں اور اگر آپ ان کو بخش دیں تو بھی آپ قادر مطلق ہیں ۔ بہرحال وہ ہیں تیرے ہی بندے اور آپ ہی جانتے ہیں کہ ان کے لئے سزا مقرر ہے یا مغفرت ۔

(آیت) ” إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (118)

” اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ۔ “

ذرا ملاحظہ تو کیجئے کہ اللہ کے یہ صالح اور مقرب بندے بارگاہ الوہیت میں کس قدر خوفزدہ ہیں اور ان لوگوں کی جرات کو دیکھئے جنہوں نے یہ افتراء باندھا ‘ جس سے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) صاف صاف برات کا اظہار کرتے ہیں اور ان لوگوں کی اس افتراء کی وجہ سے یہ بندہ اللہ کے سامنے اس طرح گڑ گڑاتے ہوئے کلام کرتا ہے ۔

ان لوگوں کے موقف کو دیکھئے اور اس عظیم دربار کو دیکھئے ۔ اس دربار میں اپنے اس غلط موقف کی وجہ سے اس قدر ذلیل و حقیر نظر آتے ہیں کہ اس پورے مکالمے میں ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کی جاتی اور نہ ان کی طرف کوئی التفات کیا جاتا ہے ۔ شاید اس منظر میں شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے یہ لوگ پسینہ پسینہ ہوگئے ہوں گے ۔ جس طرح اللہ نے انہیں نظر انداز کیا ہم بھی انہیں اسی طرح چھوڑتے ہیں اور آئیے ذرا اس دربار کے آخری منظر کو دیکھیں ۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%