لوگوں کو حق کی طرف پکارنے کا کام اگر چہ داعی انجام دیتاہے مگر پکار پر لبیک کہنا ہمیشہ خدا کی توفیق سے ہوتا ہے دعوت کی صداقت کو دلائل سے جان لینے کے بعد بھی بہت سی رکاوٹیں باقی رہتی ہیں جو آدمی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیتیں — داعی کا ایک عام انسان کی صورت میں دکھائی دینا، یہ اندیشہ کہ دعوت قبول کرنے کے بعد زندگی کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا، یہ سوال کہ اگر یہ سچائی ہے توفلاں فلاں بڑے لوگ کیا سچائی سے محروم تھے، وغیرہ۔ یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہوتا ہے جہاں آدمی فیصلہ کے کنارے پہنچ کر بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جس شخص کے اندر وہ کچھ خیر دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو شبہ کی سرحد پار کرادیتاہے اور اس کو یقین کے دائرہ میں داخل کردیتا ہے۔
خدا کی طرف سے ہر وقت انسان کو رزق فراہم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ پوری زمین انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنی ہوئی ہے۔ مگر مومنینِ مسیح نے آسمان سے طعام اتارنے کا مطالبہ کیا تو ان کو سخت تنبيه کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم کو جو رزق ملتا ہے وہ اسباب کے پردے میں مل رہا ہے۔ جب کہ مومنینِ مسیح کا مطالبہ یہ تھا کہ اسباب کا پردہ ہٹا کر ان کا رزق انھیں دیا جائے۔ یہ چیز سنت اللہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر اسباب کا ظاہری پردہ ہٹا دیا جائے تو امتحان کس بات کا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ کھیت سے لہلہاتی ہوئی فصل کا پیدا ہونا یا مٹی کے اندر سے ایک شاداب درخت کا نکل کر کھڑا ہوجانا بھی اسی طرح معجزہ ہے جس طرح بادلوں میں ہو کر کسی خوان کا ہماری طرف آنا۔ مگر ان واقعات کا معجزہ ہونا ہم کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ پردہ میں ہو کر ظاہر ہورہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ پردہ کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ وہ ’’زمین‘‘ سے نکلنے والے رزق کو ’’آسمان‘‘ سے اترنے والے رزق کے روپ میں پالے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ میں دیکھ کر مانوں گا تو گویا وہ کہہ رہا ہے کہ امتحان سے گزرے بغیر میں خدا کی رحمت میں داخل ہوں گا۔ حالاں کہ خدا کی سنت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔
0%