ایک آدمی سفر کرتا ہے اور اس کے ساتھ مال ہے۔ راستہ میں اس کی موت کا وقت آجاتاہے۔ اب اگر وہ اپنے قریب دو مسلمان پائے تو ان کو اپنا مال دے دے اور اس کے بارے میں انھیں وصیت کر دے۔ اگر دو مسلمان بروقت نہ ملیں تو غیر مسلموں میں سے دو آدمی کے ساتھ یہی معاملہ کرے۔یہ دو صاحبان مال لاکر اس کو وارثوں کے حوالے کریں۔ اس وقت وارثوں کو اگر ان کے بیان کے بارے میں شبہ ہوجائے تو کسی نماز کے بعد مسجد میں ان گواہوں کو روک لیا جائے۔ یہ دونوں شخص عام مسلمانوں کے سامنے قسم کھائیں کہ انھوںنے مرنے والے کی طرف سے جو کچھ کہا صحیح کہا۔ اگر وارث اس کے حلفیہ بیان پر مطمئن نہ ہوں تو وارثوں میں سے دو آدمی اپنی بات کے حق میں قسم کھائیں اور پھر ان کی قسم کے مطابق فیصلہ کردیا جائے۔ وارثوں کو یہ حق دینا گویا ایک ایسا روک قائم کرنا ہے کہ کوئی خیانت کرنے والا خیانت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔
شریعت میں ایک مصلحت یہ ملحوظ رکھی گئی ہے کہ روز مرہ کے معاملات میں ایسے احکام ديے جائیں جوآدمی کی وسیع تر زندگی کے لیے سبق ہوں۔ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے مال کا حق داروں تک پہنچنا ایک خاندانی اور معاشی معاملہ ہے۔ مگر اس کو دو اہم باتوں کی تربیت کا ذریعہ بنا دیاگیا۔ ایک یہ کہ لوگوں میں یہ مزاج بنے کہ معاملات میں وہ تعلق اور رشتہ داری کا لحاظ نہ کریں، بلکہ صرف حق کا لحاظ کریں۔ وہ یہ دیکھیں کہ حق کیا ہے، نہ یہ کہ بات کس کے موافق جارہی ہے اور کس کے خلاف۔ دوسرے یہ کہ ہر بات کو خدا کی گواہی سمجھنا۔ کوئی بات جو آدمی کے پاس ہے، وہ خدا کی امانت ہے۔ کیوں کہ آدمی نے اس کو خدا کی دی ہوئی آنکھ سے دیکھا اور خدا کے ديے ہوئے حافظہ میں اس کو محفوظ رکھا۔ اور اب خدا کی دی ہوئی زبان سے وہ اس کے متعلق اعلان کررہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ امانت میں خیانت ہوگی کہ آدمی بات کو اس طرح نہ بیان کرے جیسا کہ اس نے دیکھا اور جس طرح اس کے حافظہ نے اس کو محفوظ رکھا۔