وما افاء اللہ .................................... رحیم (01) (95 : 6 تا 01)
” اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (نیز وہ مال) ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیں (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ “
ان آیات میں فے کا حکم بیان ہوا یا فے جیسے دوسرے اموال کا۔ نیز ان آیات میں امت مسلمہ اور اسلامی سوسائٹی کی ایک نہایت ہی اہم صفت اور اس کی دائمی حالت کو بیان کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کی امتیازی صفت رہی ہے اور امت کی پوری تاریخ میں اس کی امتیازی شان رہی ہے۔ یہ امت کی وہ خصوصیت رہی ہے جس کو اس نے مضبوطی سے پکڑے رکھا ہے۔ کسی دور میں بھی خدا کے فضل سے امت سے یہ صفت جدا نہیں ہوئی ہے۔ یہ صفت امت مسلمہ کی کسی نسل ، کسی قوم ، کسی شخص مسلم سے ایک طویل اسلامی تاریخ میں کبھی جدا نہیں ہوئی ہے۔ پھر اس دنیا میں جن جن علاقوں میں مسلمان ہیں ان میں سے کسی علاقے میں بھی مسلمانوں سے یہ صفت الگ نہیں ہوئی ہے اور یہ وہ عظیم حقیقت ہے اور اس پر گہرا غور کرنا چاہیے۔
وما آفاء ........................ شیء قدیر (95 : 6) ” اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔
اوجفتم (95 : 6) ایجاف سے ہے۔ ایجاف کے معنی ہیں گھوڑے کو تیزی سے دوڑانا۔ رکاب کے معنی اونٹ کے ہیں۔ مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ بنو نضیر نے اپنے پیچھے جو مال چھوڑے ہیں انہوں نے اس پر گھوڑے نہیں دوڑائے اور نہ اونٹوں پر تیز سفر کرکے انہوں نے اسے حاصل کیا ہے۔ لہٰذا ان اموال کا حکم مال غنیمت کا نہیں ہے۔ مال غنیمت میں تو مجاہدین کا 5/4 حصہ ہوتا ہے اور 5/1 حصہ اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہوتا ہے۔ جب کہ جنگ بدر کے اموال عنائم کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کیا۔ اس فے کا حکم یہ ہے کہ یہ سب کا سب اللہ رسول اللہ ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کا ہے۔ اور اس میں تصرف حضور اکرم ﷺ کریں گے اور آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ، ان سے مراد رسول اللہ کے قرابت دار ہیں۔ اس لئے کہ صدقات ان کے لئے جائز نہ تھے اور زکوٰة میں ان کا حصہ نہ تھا اور نبی ﷺ کی کوئی دولت نہ تھی جسے ورثاء پالیتے اور ان میں فقراء بھی تھے ، جن کی کوئی آمدن نہ تھی۔ اس لئے ان کے لئے عنائم کے خمس میں حصہ رکھا گیا تھا جیسا کہ فے اور فے کی قسم کے اموال میں ان کا حصہ رکھا گیا تھا۔ رہے دوسرے لوگ تو ان کے احکام معروف ومعلوم ہیں اور یہ فنڈز حضور اکرم ﷺ کے تصرف خاص میں تھے۔
یہ تو تھا فے کا حکم جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان آیات میں اس حکم اور ان حالات پر اکتفا نہیں کیا گیا جن میں یہ حکم جاری ہوا بلکہ یہاں ایک دوسری حقیقت کا بھی اظہار کردیا گیا ہے۔
ولکن اللہ .................... من یشاء (95 : 6) ” بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا کرتا ہے “۔ لہٰذا یہ اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ ہے۔ جس کا ظہور ہوگیا۔
واللہ ........................ قدیر (95 : 6) ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔
یوں رسولوں کا معاملہ تقدیر الٰہی کا اظہار قرار پاتا ہے اور اللہ کی تقدیر کے چکروں میں رسولوں کا مقام بھی متعین کیا جاتا ہے کہ رسولوں کا ظہور اور غلبہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہوتی۔ دست قدرت یہ کام کرتا ہے۔ اگرچہ رسول بشر ہیں لیکن وہ اللہ کے ساتھ براہ راست مربوط ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اپنے نظام قضاوقدر کا ظہور کرتا ہے اور رسول جو کام کرتے ہیں وہ اذن الٰہی سے کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ مقدر ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق حرکت بھی نہیں کرتے۔ وہ کوئی کام اپنی مرضی یا اپنے مفادات سے نہیں کرتے۔ وہ جنگ ، جہاد یا امن ، مصالحت یا مخاصمت صرف اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اور وہ اللہ کی تقدیر کا ظہور ہوتا ہے اور اللہ کی تقدیر ان کے تصرفات اور ان کی حرکات سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ اللہ کا فعل ہوتا ہے اور اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔