آیت 1 { اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ } ”قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند شق ہوگیا۔“ جیسا کہ قبل ازیں بھی کئی بار ذکر ہوچکا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سب سے قطعی اور یقینی نشانی حضور ﷺ کی بعثت ہے۔ اس حوالے سے حضور ﷺ کا فرمان ہے : بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَـیْنِ 1 ”مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح جڑا ہوا بھیجا گیا ہے“۔ اس لحاظ سے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ کا مفہوم یہ ہے کہ اب جبکہ آخری رسول ﷺ بھی دنیا میں آ چکے ہیں تو سمجھ لو کہ قیامت کا وقت بہت قریب آ لگا ہے۔ سورة السجدۃ کی آیت 5 میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن ہمارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حضور ﷺ کے وصال کو ابھی صرف ڈیڑھ دن ہی ہوا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق حضور ﷺ کی بعثت کے بعد اب قیامت بالکل سامنے ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام اپنے منہ کے ساتھ صور لگائے بالکل تیار کھڑے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارے کی دیر ہے۔ جونہی اشارہ ہوگا وہ صور میں پھونک مار دیں گے۔ قربِ قیامت کے اس مفہوم کو سورة المعارج میں یوں بیان کیا گیا ہے : { اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا۔ وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو قیامت کو بہت دور سمجھ رہے ہیں ‘ جبکہ ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ آیت میں چاند کے پھٹنے کا ذکر ایک خرق عادت واقعہ کے طور پر ہوا ہے۔ روایات کے مطابق اس وقت حضور ﷺ منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ چاند کی چودھویں رات تھی۔ آپ ﷺ کے ارد گرد ہر طرح کے لوگ تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ ﷺ کی طرف سے کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : چاند کی طرف دیکھو۔ لوگوں کو متوجہ کر کے آپ ﷺ نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا اور پھر اگلے ہی لمحے دونوں ٹکڑے قریب آکر دوبارہ جڑ گئے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : دیکھو اور گواہ رہو ! کفار نے کہا کہ محمد ﷺ نے ہم پر جادو کردیا تھا ‘ اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکہ کھایا۔ بعد میں باہر سے آنے والے لوگوں نے بھی اس کی شہادت دی۔ میرے نزدیک یہ معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک ”خرقِ عادت“ واقعہ تھا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جا چکی ہے کہ ہر رسول کو ایک معجزہ دیا گیا جو باقاعدہ دعوے کے ساتھ دکھایا گیا۔ اس لحاظ سے حضور ﷺ کا معجزہ قرآن ہے۔ البتہ خرق عادت واقعات حضور ﷺ سے بیشمار نقل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اگر اولیاء اللہ سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو حضور ﷺ کی کرامات تو ہزار گنا بڑی ہوں گی۔ اس واقعہ پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر بھی کہ اس سے متعلق دنیا میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ اسی لیے سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے مکتبہ فکر کے لوگوں نے آیت کے متعلقہ الفاظ کی مختلف تاویلات کی ہیں۔ بہرحال جہاں تک تاریخی ثبوت نہ ہونے کا تعلق ہے اس بارے میں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ یہ واقعہ رونما ہونے کے وقت آدھی دنیا میں تو دن کی روشنی ہوگی۔ لیکن جن علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا تھا ان علاقوں کے لوگ بھی تو ظاہر ہے اس وقت ٹکٹکی باندھے چاند کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے اکثر اس واقعے کے عینی شاہد بن جاتے۔ پھر یہ منظر بھی صرف لمحے بھر کا تھا اور اس دوران چاند کی روشنی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا کہ لوگ چونک کر دیکھتے۔ البتہ ایک تاریخی روایت کے مطابق برصغیر میں مالابار کے ساحلی علاقے کے ایک ہندو راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بعد میں جب عرب تاجروں کے ذریعے اس تک اسلام کی دعوت اور قرآنی تعلیمات پہنچیں تو اس نے نہ صرف ایک چشم دید گواہ کے طور پر اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ وہ ایمان بھی لے آیا۔ واللہ اعلم !