undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 62{ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا۔ } ”پس سجدہ کرو اللہ کے لیے اور اسی کی بندگی کرو !“ روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے پہلی مرتبہ یہ سورت حرم کعبہ میں قریش کے ایک بڑے مجمع کے سامنے تلاوت فرمائی تھی۔ اس مجمع میں اہل ایمان بھی تھے اور مشرکین کے خواص و عوام بھی۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جب آپ ﷺ نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کی ہمت نہ ہوئی اور حضور ﷺ نے جب یہ آخری آیت تلاوت فرمانے کے بعد سجدہ کیا تو آپ ﷺ کے ساتھ مسلم و کافر سبھی سجدہ میں گرگئے۔ بعد میں مشرکین کو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ آخر کار انہوں نے اپنے سجدے کے جواز میں یہ بات بتائی کہ ہم نے تو لات ‘ عزیٰ اور منات کے ذکر آیت 19 اور 20 کے بعد محمد ﷺ کی زبان سے یہ کلمات بھی سنے تھے : تلک الغرانِقَۃ العُلٰی ‘ وان شفَاعتُھُن لتُرٰجی یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ‘ اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کلمات سننے کے بعد ہم نے سمجھا کہ محمد ﷺ نے ہماری دیویوں کو بھی تسلیم کرلیا ہے ‘ لہٰذا اب ان کے ساتھ ہمارا جھگڑا ختم ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس پوری سورت کے سیاق وسباق میں ان فقروں کی کوئی جگہ ممکن ہی نہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین کے سجدہ میں گر جانے کا واقعہ کلام الٰہی کی غیر معمولی تاثیر اور خصوصی طور پر اس سورت کے ُ پرجلال اندازِ خطابت کے باعث پیش آیا تھا۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم کلام اللہ کے ادبی جمال ‘ اس کی فصاحت و بلاغت کی لطافتوں اور خطابت کی چاشنی کا صحیح ادراک نہیں کرسکتے۔ مگر اس کے اوّلین مخاطبین تو اہل زبان تھے۔ پھر نزول قرآن کے زمانے کے عرب معاشرے میں سخن گوئی اور سخن فہمی کا مجموعی ذوق بھی عروج پر تھا۔ وہ لوگ قرآن مجید کے ادبی و لسانی محاسن کو خوب سمجھتے تھے ‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے شعراء ‘ ادباء اور خطباء قرآن مجید کے اعجازِ بیان کے سامنے سرنگوں ہوچکے تھے۔ ظاہر ہے اچھے کلام کی تاثیر سے تو کسی کو بھی انکار نہیں۔ خود حضور ﷺ کا فرمان ہے : اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً 1 1 صحیح البخاری ‘ کتاب الادب ‘ باب ما یجوز من الشعر والرجز والحداء … وسنن الترمذی ‘ ابواب الادب ‘ باب ما جاء ان من الشعر حکمۃ۔ ”یقینا بہت سے اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں“۔ نیز فرمایا : اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا 2 2 صحیح البخاری ‘ کتاب الطب ‘ باب ان من البیان سحراً۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب الجمعۃ ‘ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ۔ ”یقینابہت سے خطبات جادو کی سی تاثیر رکھتے ہیں“۔ زورِ خطابت اور تاثیر کے اعتبار سے اگرچہ قرآن مجید کی ہر آیت ہی لاجواب ہے مگر سورة النجم اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ مندرجہ بالا حقائق کے تناظر میں مذکورہ واقعہ کی توجیہہ یہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے اس سورت کی تلاوت شروع کی تو تمام حاضرین مجمع دم بخود ہو کر سننے میں محو ہوگئے۔ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ ان کی روحوں کی گہرائیوں تک اترتا گیا۔ خصوصاً مشرکین کی کیفیت تو ایسی تھی کہ تلاوت کے اختتام تک وہ گویا مبہوت ہوچکے تھے۔ چناچہ اختتامِ تلاوت پر جب حضور ﷺ اور مجمع میں موجود اہل ِ ایمان سجدہ میں گئے تو { فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ } کے حکم کی تاثیر ‘ ہیبت اور جلالت کی تاب نہ لاتے ہوئے سب کے سب مشرکین بھی بےاختیار سجدے میں گرگئے۔ گویا وہ اسی طرح سجدے میں گرا دیے گئے واللہ اعلم ! جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آئے ہوئے جادوگر سجدوں میں گرا دیے گئے تھے : { وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ۔ } الاعراف۔ واضح رہے کہ سورة الاعراف کی اس آیت میں فعل مجہول اُ لْــقِیَ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ایسے لگا جیسے انہیں کسی نے پکڑ کر سجدے میں گرا دیاہو۔