undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وانہ ............ واحیا (35 : 44) ” اور یہ کہ اس نے موت دی اور زندگی بخشی “ اسی طرح اس آیت سے بھی موت وحیات کی لاتعداد صورتیں نکلتی ہیں اور انسان اپنے احساس کو تیز کرکے گنوا سکتا ہے۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ نے موت وحیات کو پیدا کیا جیسا کہ دوسری سورت میں کہا ہے۔

خلق الموت والحیاة ” جس نے موت وحیات کو پیدا کیا “ موت وحیات دونوں کا تکرار انسانی سوسائٹی میں ہوتا رہتا ہے لہٰذا ہر کوئی موت وحیات کو جانتا ہے لیکن اگر انسان موت وحیات کا راز معلوم کرنا چاہے تو یہ بہت ہی سر بستہ راز ہوجاتے ہیں۔ موت کی حقیقت کیا ہے اور حیات کا راز کیا ہے ؟ تو انسان ان کی حقیقت کی تعبیر اپنے الفاظ میں نہیں کرسکتا نہ ان کی کوئی شکل و صورت متعین کرسکتا ہے۔ ایک زندہ انسان کے ڈھانچے میں حیات کس طرح داخل ہوگئی۔ یہ ہے کیا اور کہاں سے آتی ہے اور اس انسانی ڈھانچے کے روئیں روئیں میں کس طرح آگئی۔ یہ کس طرح اس زندہ انسان یا زندہ کائنات میں سرایت کرگئی ؟ اور موت کیا ہے ؟ کس طرح یہ زندگی نکلی اور موت آگئی۔ یہ ایک راز ہے اور پس پردہ ہے اور اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اس نے زندہ کیا اور مارا ، اس سے موت وحیات کی کئی ملین صورتیں سامنے آتی ہیں۔ اس زمین میں زندہ چیزوں کے کئی جہاں ہیں۔ ایک لمحے میں کئی کئی ملین چیزیں مرتی ہیں اور کئی کئی ملین زندہ ہوتی ہیں ان میں زندگی داخل ہوتی ہے اور اس راز کو آج تک صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ کئی ایسی اموات ہیں جو دوبارہ زندگیوں کا باعث اور سبب بنتی ہیں۔ صدیوں سے یہ صورتیں ظاہر ہوتی چلی آئی ہیں۔ جب انسان صدیوں کا تصور کرتا ہے۔ انسان کی پیدائش سے بھی پہلے کے زمانے سے تو یہاں موت وحیات کی کئی قسمیں جاری ہیں۔

یہ تصاویر کی لاانتہا تعداد ہے جو نمودار ہوتی ہے۔ ان مختصر کلمات سے یہ تصاویر ظاہر ہوتی ہیں اور انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے اوپر کنٹرول اور ضبط نہیں کرسکتا اور اس پر عجیب اثر ہوتا ہے۔