وان ............ ما سعی (35 : 93) ” اور یہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں مگر وہ جس کی اس نے سعی کی “ یعنی انسان کے حساب میں وہی لکھا جائے گا جو اس نے کیا۔ اس کے اعمال کے ساتھ دوسروں کے اعمال نہ لکھے جائیں گے نہ اس کے اعمال سے کمی کرکے کسی دوسرے کی کمی پوری کی جائے گی اور یہ دنیاوی زندگی فرصت عمل ہے تاکہ وہ عمل کرے اور جدوجہد کرے۔ جب مر گیا تو اس کی فرصت عمل ختم ہوجائے گی اور اس کے اعمال کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ ہاں صرف وہ اعمال رہ جائیں گے جن کے بارے میں حدیث میں نص دارد ہے۔
اذامات ............ ینتفع بہ ” جب انسان مرجائے تو اس کا عمل ختم ہوجات ہے ۔ ماسوائے تین شعبوں کے اس کا صالح بیٹا ہو اور وہ اس کے لئے اس کے بعد دعا کرتا ہو۔ یا اس نے کوئی صدقہ جاریہ کیا ہو یا اس نے کوئی علمی کام کیا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں “ (مسلم) یہ تینوں شعبے دراصل اس شخص کے اعمال جاریہ ہیں۔ اس حدیث سے امام شافعی اور آپ کے متبعین یہ مسئلہ نکالتے ہیں کہ قرات قرآن کا ثواب مردوں کو نہیں پہنچتا کیونکہ یہ قرات ان کے عمل اور کسب سے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلے میں امت کو کوئی ہدایت نہیں فرمائی نہ اس کی تاکید فرمائی نہ کسی نص میں یا اشارے میں اس کی ہدایت فرمائی۔ صحابہ کرام میں سے بھی کسی صحابی سے یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قرآن پڑھ پڑھا کر ایصال ثواب کیا ہے۔ اگر ایسا ہوسکتا ہے تو وہ کس طرح اس سے پیچھے رہ سکتے تھے۔ پھر عبادات اور ایصال ثواب کے مسائل ایسے ہیں جن میں قرآن وسنت کے نصوص پر اکتفا کرنا چاہئے۔ ایسے معاملات میں رائے اور قیاس کی گنجائش نہیں ہے۔ رہی دعا و صدقہ تو اس پر اجماع ہے کہ اس کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے۔ (ابن کثیر)