کون ہے یہ شخص۔
الذی ............ واکدی (35 : 43) ” جو راہ خدا سے پھر گیا اور تھوڑا سا دے کر رک گیا “ اور اللہ تعالیٰاس کی روش کو تعجب انگیز قرار دیتا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ایک متعین شخص تھا جس نے اللہ کی راہ میں تھوڑا سا خرچ کیا اس کے بعد وہ خرچ کرنے سے رک گیا۔ اس لئے کہ وہ فقیر نہ ہوجائے۔ کشاف میں علامہ زمحشری نے اس کا تعین کیا ہے کہ یہ حضرت عثمان ابن عفان ؓ ہیں لیکن حضرت عثمان ؓ کا جو مقام و مرتبہ تھا اور انہوں نے تحریک اسلامی کی راہ میں جو کچھ خرچ کیا ، بغیر کسی توقف اور بغیر کسی حساب کے وہ معلوم ہے اور ان کا جو عقیدہ تھا وہ بھی معلوم ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور کوئی دوسرا شخص ذمہ داری نہیں لے سکتا اور جس روایت کا علامہ زمخشری نے ذکر کیا ہے وہ اسلام کے اس بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ روایت یہ ہے کہ حضرت عثمان کار خیر میں خرچ کرتے تھے۔ عبداللہ ابن سعد ابن ابو سرح نے کہا جس طرح تم خرچ کررہے ہو اسی طرح تو تمہارے پاس کچھ نہ رہے گا۔ یہ حضرت عثمان کے رضاعی بھائی تھے۔ حضرت عثمان نے کہا کہ میں نے بہت گناہ کئے ہیں اور میں اللہ کی راہ میں خرچ کرکے معافی چاہتا ہوں تو عبداللہ نے کہا مجھے اپنی نافہ اس کے کجادے کے ساتھ دے دو اور میں تمہارے تمام گناہ اپنے سر لیتا ہوں چناچہ اس کو انہوں نے ناقہ دے دی اس سودے پر انہوں نے گہواہ بھی ٹھہرائے اور حضرت عثمان انفاق سے رک گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ روایت ظاہرا باطل ہے کیونکہ یہ قرآنی اصول کے خلاف ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک متعین شخص ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے مراد ہو لوگوں کا ایک نمونہ جو اس قسم کے ہوتے ہیں مثلاً وہ لوگ جو اسلامی نظریہ حیات کی راہ میں خرچ کریں اور پھر رک جائیں تو اللہ کے نزدیک ایسا شخص قابل تعجب ہے۔ ایسے شخص کی طرف اشارہ کرکے قرآن مجید صحیح تصورات کی توضیح کرتا ہے۔