undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

الذین ............ اللمم (35 : 23) ” جو بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہوجائے۔ “ بڑے گناہوں سے مراد بڑی نافرمانیاں ، فواحش سے مراد بھی بڑے گناہ ہیں لیکن خصوصاً وہ جن کے اندر فحاشی ہو۔ ” اللمم “ کے بارے میں مفسرین کے احوال مختلف ہیں۔ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ استثنا منقطع ہے۔ (استثنا منقطع وہ ہے جہاں استثنا کردہ چیز اس مجموعے کی فرد نہ ہو جس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ ) کیونکہ لمم چھوٹے گناہوں کو کہا جاتا ہے یعنی چھوٹے چھوٹے اعمال ، امام احمد نے روایت کی ہے ، عبدالرزاق سے انہوں نے معمر سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے لمم کے ساتھ زیادہ مشابہت کرنے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں دیکھی جو حضرت ابوہریرہ نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔ رسول اللہ فرماتے ہیں ” جب اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا کا جرم لکھ دیا تو وہ اسے پائے گا یعنی اس کی سزا اسے لازماً ملے گی ، آنکھ کا زنا نظر ہے زبان کا زنا بات ہے اور نفس کی تمنا اور اشتہا ہوتی ہے اور انسان کے اندام نہانی اس کی تصدیق کرتے ہیں یا تکذیب “ (صحیحیں)

ابن جریر نے روایت کی ہے ، محمد ابن عبدالاعلی سے انہوں نے ابن ثور سے انہوں نے معمر سے انہوں نے اعمش سے انہوں نے الوالضحی سے کہ ابن مسعود ؓ نے فرمایا ” آنکھ کا زنا نظر ہے ہونٹوں کا زنا بوسہ لینا ہے ، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے ، پاؤ کا زنا چل کر جانا ہے اور انسانی اعضا اس کی تکذیب کرتے ہیں یا تصدیق۔ اگر اس کا فرج آگے بڑھا تو یہ زانی ہو اور نہ لمم کا مرتکب۔ یہی بات مسروق اور شعبی نے کہی ہے۔

عبدالرحمن ابن نافع کہتے ہیں (ان کو ابن لبابہ طائفی بھی کہتے ہیں) میں نے ابوہریرہ سے ” لمم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا بوسہ دینا ، دیکھنا ، آنکھ سے اشارہ کرنا ، ہاتھ لگانا اور جب فریقین کے اعضائے نہانی باہم مل جائیں اور غسل واجب ہوجائے تو یہ زنا ہے۔ یہ تو ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتے چلتے اقوال لمم کے بارے میں لیکن کچھ دوسرے اقوال بھی ہیں۔

علی ابن طلحہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے الااللمم یعنی ماسوائے اس کے جو گزر گیا یہی قول زید ابن اسلم کا ہے۔ علامہ ابن جریر روایت کرتے ہیں ابن مثنی سے وہ محمد ابن جعفر سے وہ شعبہ سے وہ منصور سے وہ مجاہد سے انہوں نے الااللمم کا معنی یہ کہا کہ وہ شخص جو گناہوں کا ارتکاب کرے اور پھر چھوڑ دے۔

ابن جریر نے روایت کی ہے سلیمان ابن جبار سے انہوں نے ابو عاصم سے انہوں نے زکریا سے انہوں نے ابن اسحاق سے انہوں نے عمر ابن دینار سے انہوں نے عطا سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے۔

الذین ............ اللمم (35 : 23) ” وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ قصور ان سے سر زد ہوجائیں ” انہوں نے کہا اس سے مراد وہ شخص ہے جو فحاشی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر توبہ کرلیتا ہے اور رسول اللہ نے فرمایا۔

ان تعغفرالھم تغفر جما

وای عبدلک ما الما

” اے اللہ اگر آپ معاف کریں تو سب کچھ معاف کردیں اور آپ کا کون سا ایسا بندہ ہے جس نے کوئی قصور نہیں کیا “ اس طرح امام ترمذی نے روایت کی ہے احمد ابن عثمان بصری سے انہوں نے ابو عاصم النبیل سے اور اس کے بعد انہوں نے کہا یہ حدیث صحیح حسن اور غریب ہے اور صرف زکریا ابن اسحاق کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ بزاز نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث متصل صرف اس سند کے ساتھ ہے۔

ابن جریر نے روایت کی ، محمد ابن عبداللہ ابن بزیع سے انہوں نے یزید ابن ذریع سے انہوں نے یونس سے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے (میں سمجھتا ہوں اس نے اس روایت کو حضور تک پہنچایا) اس آیت کے بارے میں۔

الذین ............ اللمم (35 : 23) ” جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اور یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہوجائے) یہاں مراد یہ ہے کہ وہ زنا کا مرتکب ہوجائے اور پھر توبہ کرے اور چھوڑ دے یا وہ چوریاں کرے اور پھر چھوڑ دے اور وہ شراب پیئے اور ترک کردے تو اسکے بعد کہا کہ یہ ہے المام اور ارتکاب۔ اس قسم کی روایت حسن سے بھی مروی ہے لیکن موقوف روایت ہے .... غرض یہ روایات کا دوسرا مجموعہ ہے او یہ لمم کا بالکل ایک دوسرا مفہوم بتاتا ہے۔

ہمارے خیال کے مطابق یہ آخری رائے اس کے بعد آنے والی آیت کے زیادہ مناسب ہے۔

ان ربک واسع المغفرة (35 : 23) ” بیشک تیرے رب کا دامن مغفرت بہت ہی وسیع ہے “ اللہ کے مغفرت کے دامن کی وسعت کے ذکر کے ساتھ مناسب یہی ہے کہ لمم سے مراد گناہ کبیرہ اور فواحش کا ارتکاب ہو۔ پھر توبہ ہوجائے اور استثنا متصل ہو اور محسنین ہی وہ لوگ ہوں جنہوں نے کبائر گناہوں کا ارتکاب کیا ہو یا فواحش کا ارتکاب کرلیا ہو اور اس کے بعد وہ جلدی سے توبہ کرکے تائب ہوگئے ہوں اور انہوں نے اصرار نہ کیا ہو جیسا دوسری جگہ آتا ہے۔

والذین ............ یعلمون (3 : 531)

” اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معا اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو اور وہ کبھی دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔ “ اور ان لوگوں کو قرآن کریم نے متقین کہا اور ان کے ساتھ مغفرت اور جنت کا وعدہ فرمایا جن کی وسعت زمین اور آسمانوں سے زیادہ ہے لہٰذا یہ مفہوم اللہ کی رحمت اور مغفرت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اللہ وسیع المغفرت ہے۔

اور خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اللہ کی منصفانہ جزا و سزا اللہ کے وسیع علم پر مبنی ہے۔

ھو اعلم ............ امھتکم (35 : 23) ” اور وہ تمہیں اس وقت سے خوب جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے۔ “ تمہارے تمام ظاہری اعمال کو جانتا ہے۔ یہ علم ہر ثابت حقیقت کے ساتھ وابستہ ہے جسے یہ لوگ نہیں جانتے اور اللہ ہی ہے جو اپنی مخلوق کے بارے میں جانتا ہے۔ اللہ اس وقت بھی جانتا تھا جب یہ نہ تھے اور وہ ان کو زمین سے پیدا کررہا تھا۔ پھر جب یہ ماؤں کے پیٹوں میں جنین تھے اور اس دنیا میں انہوں نے آنکھ ہی نہ کھولی تھی۔ اللہ ظاہری علم سے پہلے حقیقی علم بھی رکھتا تھا عملاً ان کے وجود میں آنے سے بھی پہلے۔

جس ذات کے علم کی نوعیت یہ ہو تو انسان اگر اس ذات کو اپنے بارے میں کوئی معلومات دیتا ہے تو یہ نہایت گستاخی ہے کیونکہ یہ گویا اللہ کو اپنی حقیقت دکھاتا ہے اور اللہ کے سامنے یہ ہوں اور یوں۔

فلا تزکوا ............ اتقی (35 : 23) ” پس اپنے نفسوں کی پاکی نہ بیان کرو وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔ “

اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ تم اللہ کو اپنے نفوس کے بارے میں اطلاع کرو یا اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا مول تول کرو ، اللہ کا علم کامل ہے اس کی جزا وسزا منصفانہ ہے۔ اللہ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔

اب آخری پیراگراف آتا ہے۔ یہ پیرا نہایت ہی نغمہ بیز ہے اور یہ پہلے پیراگراف کے مماثل ہے۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کے اساسی عناصر کو بیان کرتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسلامی نظریہ حیات اور دین حنیف کے لئے طے کئے تھے۔ اس میں انسانوں کا تعارف خالق تعالیٰ سے کرایا جاتا ہے او یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی میثت تمہاری زندگی میں فعال ہے۔ تخلیق کررہی ہے اور نہایت ہی موثر ہے اور اللہ کی مشیت کے آثار ایک ایک کرکے گنوائے جاتے ہیں اور نہایت ہی موثر انداز میں جو انسانی وجدان کے ساتھ پیوست ہوجاتے ہیں اور انسان اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ کانپ اٹھتا ہے۔ جب یہ پیرا آخر میں پہنچتا ہے تو پڑھنے والے کے احساسات پوری طرح متاثر ہوتے ہیں اور انسان پر کپکپ کی طاری ہوتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ سرشار ہوکر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔