ذلک ........ العلم (35 : 03) ” ان کا مبلغ علم بس یہی ہے “ یہ پہنچ بہت ہی معمولی ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ بہت بڑے پہنچ والے نظر آئیں۔ یہ کوتاہ دست ہیں۔ اگرچہ ان کے ہاتھ لمبے نظر آئیں وہ گمراہ ہیں اگرچہ تیزی سے فاصلے طے کررہے ہوں۔ اس لئے کہ جو شخص اپنے دل کے احساس اور عقل کے لحاظ سے اس دنیا میں قید ہو وہ کو لہو کے بیل کی طرح اس میں چکر کاٹے گا ، آگے نہیں بڑھ سکے گا حالانکہ ان کی نظروں کے سامنے یہ عظیم کائنات پڑی ہے۔ اس کائنات نے اپنے آپ کو پیدا نہیں کیا اور اس دنیا کا خود بخود وجود میں آنا ایک ایسا نظریہ ہے جو بداہتہً غلط ہے پھر یہ دنیا عبث بھی پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کا کوئی خالق ہے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہی دنیا ہے اور یہی زندگی ہے تو اس طرح یہ تخلیق عبث ثابت ہوتی ہے لہٰذا اس دنیا پر جس حیثیت سے بھی غور کیا جائے۔ ایمان لانا لازمی قرار پاتا ہے اور ایمان کا یہ حصہ بھی لازمی قرار پاتا ہے کہ آخرت میں حشر ونشر لازمی ہے ورنہ یہ عظیم اور محیرالعقول کائنات کا عبث پیدا ہونا لازم ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ جو شخص ذکر الٰہی سے منہ موڑتا ہے اور صرف دنیا کے کاموں میں مشغول رہتا ہے اس کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔ یہ اعراض اس لئے ضروری ہے کہ اپنے اہتمام ، توجہ اور محنت کو بےمحل کاموں میں نہیں صرف کرنا چاہئے اور جن لوگوں کی دلچسپیاں صرف اس دنیا تک ہی محدود ہوں ان کی اہمت کو کم کرنے کے لئے بھی ان کی طرف سے منہ موڑنا ضروری ہے۔ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں سے منہ موڑ دو اس لئے ہمیں چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نظر انداز کردیں کیونکہ اطاعت امر ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کی طرح ہم کہیں۔ سمعنا وعصینا اللہ ہمیں اس رویہ سے بچائے۔
ان ربک ............ اھتدی (35 : 03) ” یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے۔ “ اللہ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ ہیں۔ اس لئے اللہ نے نبی اور ان کے ساتھیوں کے لئے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ اپنے آپ کو گمراہ لوگوں کے ساتھ فضول مصروف رکھیں یا ان کے ہم محفل ہوں یا ان کے دوست بنیں نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ جانتے بھی ہوں کہ یہ شخص گمراہ ہے اور اس کی سرگرمیاں صرف دنیا تک محدود ہیں۔ وہ حقیقت کا ادراک کرنے کی کوشش یا ارادہ نہیں کرتا اور جان بوجھ کر ایمان نہیں لاتا۔ آخرت پر ایمان نہیں لاتا اور اس کی تمام دلچسپیاں اس دنیا کی مختصر زندگی تک محدود ہیں۔ ایسے شخص پر محنت کریں۔
وہ علم جو ان کوتاہ بینوں اور گمراہوں کو حاصل ہوتا ہے وہ بظاہر عوام الناس کی نظروں میں بہت بڑا نظر آتا ہے وہ لوگ جن کا دل ، قوت مدرکہ اور احساس عامی ہوتا ہے اس لئے ان کو عملی زندگی میں وہ موثر نظر آتا ہے لیکن ان لوگوں کا یہ علم ان سے گمراہی کی صفت دور نہیں کرسکتا نہ ان سے صفت جہالت اور کوتاہ بینی کو دور کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس کائنات اور اس کے خالق کے درمیان رابطہ اور انسانی عمل اور اس کی جزا وسزا کے درمیان رابطہ دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو ہور علم کے لئے ضروری ہیں اور ان دونوں حقیقتوں سے خالی جو علم بھی ہوگا وہ سطحی ہوگا اور ورہ انسانی زندگی میں پوری طرح موثر نہ ہوگا نہ ہو اور اس کی وجہ سے ایک انسان اور انسان کے درمیان ادبی رابطہ قائم ہو۔ ورنہ تمام علوم صرف ٹیکنالوجی قرار پائیں گے۔ انسانیت کا تنزل شمار ہوں گے۔ علوم کا ٹیکنیکل پہلو جس قدر آگے بڑھتا ہے ان کا انسانی پہلو اس قدر گرتا ہے۔
انسان کا یہ شعور کہ اس کا ایک خالق ہے اور اس خالق نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کائنات کو بھی پیدا کیا ہے اور یہ انسان اور یہ کائنات ایک ہی انداز تخلیق رکھتے ہیں۔ انسان کے شعور حیات اور شعور ماحول کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ انسان کے وجود کی ایک قیمت ٹھہرتی ہے اور انسان کا مقصد وجود زیادہ جامع اور ارفع ہوجاتا ہے اور اس کا وجود اس کے محدود خاندان سے بلند ہوجاتا ہے۔ اس کا وجود اس کی قوم سے بڑا اور ارفع ہوجاتا ہے۔ اس کا وجود اس کے وطن سے زیادہ قیمتی ہوجاتا ہے۔ انسان طبقاتی کشمکش سے بالا ہوجاتا ہے اور اس قسم کی تمام تشکیلات اور اجتماعیتوں سے بالا ہوجاتا ہے۔
پھر انسان کا یہ شعور کہ اس کا خالق آخرت میں اس سے حساب لے گا اور اس کو جزا وسزا دے گا ، انسان کے جذبات ، انسان کے مقاصد ، انسان کے پیمانے اور قدریں بدل دیتا ہے۔ انسان کے تصورات کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ انسان کا انجام اس کے اخلاق کے ساتھ مربوط ہوجاتا ہے۔ یوں انسان کی قوت اور اس کی فعالیت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی ہلاکت یا اس کی نجات اس کی نیت اور عمل میں جواب دہی کے احساس پر موقوف ہوگا۔ یوں انسانی شخصیت کے اندر ” انسانیت “ قوی ہوگی کیونکہ انسان کے اندر یہ شعور ایک نگران کی طرح بیدار ہوتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ آخری حساب و کتاب ابھی باقی ہے۔ غرض اللہ پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا ایک بہت ہی اہم اور بڑا مسئلہ ہے اور انسانی زندگی میں اس کی بنیادی اہمیت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کے لئے یہ مسئلہ روٹی ، کپڑے اور مکان سے زیادہ اہم ہے۔ اگر یہ عقیدہ او شعور ہوگا تو یہ مخلوق ” انسان “ ہوگا اگر نہ ہوگا تو یہ محض جانور ہوگا۔
جب معیار بدل جائیں ، مقاصد بدل جائیں ، ہدف بدل جائے اور زندگی کے سب تصورات بدل جائیں تو پھر انسان اور انسان کے درمیان کوئی مابہ الاشتراک امر نہیں رہتا۔ باہم تعامل اور تعاون نہیں رہتا بلکہ باہم تعارف بھی نہیں رہتا اور لوگ ایک دوسرے کو سمجھ بھی نہیں سکتے ، چہ جائیکہ وہ باہمی انصاف کرسکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مومن باللہ اور ایک خالص دنیا پرست ، مفاد پرست کے درمیان کوئی صحبت شرکت ، تعاون اور لین دین نہیں ہوسکتا۔ یہ تو ہے اصل اور حقیقت اس کے سوا اور جو بات بھی کوئی کرے گا وہ محض دکھاوا ہوگا اور امر الٰہی کے خلاف بات ہوگی۔
فاعرض ............ الدنیا (35 : 92) ” پس اے نبی جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں اسے اس کے حال پر چھوڑ دے۔ “