آیت 29{ فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۔ } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ اعراض کر لیجیے ہر اس شخص سے جس نے روگردانی کی ہے ہمارے ذکر سے ‘ اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے۔“ آپ ﷺ ہر ایسے شخص کو نظر انداز کردیں اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں جو صرف اور صرف دنیا کا طالب ہے اور اپنے اس مطلوب کی دھن میں اس نے ہماری یاد سے پیٹھ موڑ لی ہے۔ ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے جس کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی ان آیات میں کردی گئی ہے :{ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَج یَصْلٰٹہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۔ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا۔ } ”جو کوئی عاجلہ دنیا کا طلب گار بنتا ہے ہم اس کو جلدی دے دیتے ہیں اس میں سے جو کچھ ہم چاہتے ہیں ‘ جس کے لیے چاہتے ہیں ‘ پھر ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لیے جہنم۔ وہ داخل ہوگا اس میں ملامت زدہ ‘ دھتکارا ہوا۔ اور جو کوئی آخرت کا طلب گار ہو ‘ اور اس کے لیے اس کے شایانِ شان کوشش کرے اور وہ مومن بھی ہو تو یہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی۔“