آیت 28{ وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ ط اِنْ یَّـتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ج } ”اور ان کے پاس اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ وہ نہیں پیروی کر رہے مگر صرف گمان کی۔“ یعنی فرشتوں کے مونث نام رکھنے اور پھر ان ناموں کے مطابق دیویاں بنا کر ان کی پوجا کرنے کے بارے میں ان کے پاس نہ تو کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ ہی اللہ کی اتاری ہوئی کسی کتاب سے کوئی سند۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ لوگ محض اپنے ظن وتخمین اور وہم و گمان کی پیروی کرر ہے ہیں۔ { وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔ } ”اور ظن تو حق سے کچھ بھی مستغنی نہیں کرسکتا۔“ یعنی گمان کسی درجے میں بھی حق کا بدل نہیں ہوسکتا اور وہ حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔ -۔ حق یا تو وہ الہامی علم revealed knowledge ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچایا ہے یا پھر انسان کا وہ اکتسابی علم acquired knowledge جو وہ اپنے حواس سے حاصل ہونے والی ٹھوس معلومات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر حاصل کرتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے : اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ ‘ عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الْاَبْدَان۔ اس موضوع پر مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو : سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کی تشریح۔ اس کے علاوہ جن علوم کی بنیاد ظن وتخمین پر ہے ‘ حق کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔