ان ھی الا اسمائ ........ ربھم الھدی (35 : 32)
” دراصل یہ کچھ نہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔ “
یہ نام لات ، منات اور عزی وغیرہ کو معبود کہنا ، ان کو فرشتے کہنا ، فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنا یا فرشتوں کو عورتیں کہنا ، یہ سب الفاظ ہیں لیکن جن معانی کے لئے یہ لوگ ان کو بولتے ہیں وہ تو سرے سے ہیں ہی نہیں نہ اس قسم کے دعا دی پر کوئی حجت ہے۔ اللہ نے ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لہٰذا ان دعا دی پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ حقیقت کا اپنی جگہ ایک وزن ہوتا ہے۔ حقیقت کی اپنی جگہ قوت ہوتی ہے۔ رہا باطل تو وہ ضعیف اور ہلکا ہوتا ہے ، کمزور ہوتا ہے اور اس کے اندر گرفت کی قوت نہیں ہوتی۔
اس آیت کے نصف میں ان کو ان کے اوہام و خرافات میں غرق چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان سے مکالمہ ختم کردیا جاتا ہے اور ان سے نظر پھیر دی جاتی ہے۔ یوں کہ وہ گویا مکالمہ کے اندر تھے ہی نہیں۔ اب وہ غائب کردیئے جاتے ہیں اور ان پر تبصرہ ہوتا ہے۔
ان یتبعون ........ الانفس (35 : 32) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض ظن و گمان کی پیروی کررہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ “ لہٰذا ان کے پاس نہ حجت ہے نہ علم ہے اور نہ یقین ہے۔ ان کے عقائد محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں۔ ان کی خواہشات ان کی دلیل ہیں حالانکہ عقائد ونظریات میں ظن اور خواہش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس میں حقیقت یقین اور ہوا وہوس سے پاک اور غرض اور مطلب سے دور اور پاک رویہ درکار ہے جبکہ ان کے پاس محض ظن ، خواہش اور اغراض دنیاوی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
ولقد ........ الھدی (35 : 32) ” حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے “ لہٰذا اب تو ان کے پاس یہ عذرات بھی نہیں رہے۔
معاملہ اگر خواہشات نفسانیہ تک پہنچ جائے اور خواہشات پر فیصلے ہونے لگیں تو انسان کی کوئی کل سیدھی نہیں رہ سکتی۔ پھر ہدایت کا اور تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں رہتا کیونکہ ہدایت کو رد کرنے کی وجہ یہ نہیں رہتی کہ ان کو معلوم نہ تھا بلکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چاہتے یہ تھے۔ پہلے انہوں نے خواہش نفس کے تحت فیصلے کرلئے ہیں اب وجہ جواز تلاش کررہے ہیں جب نفس انسانی یہاں تک گر جائے تو پھر اس کے لئے ہدایت مفید ہی نہیں ہوتی۔ دلیل کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اللہ سخت ناپسندیدگی کے ساتھ سوال فرماتا ہے۔