اور یہ مشاہدایت بھی حق اور یقینی ہے۔
مازاغ ............35 : 71) ” نگاہ نہ چندھائی نہ حد سے متجاوزہوئی “ یہ نہ تھا کہ نظر چکا چوند ہوگئی اور وہ اچھی طرح نہ دیکھ سکی۔ نہ یہ ہوا کہ نظر آگے بڑھ گئی اور ہدف کو دیکھ نہ سکی بلکہ یہ مشاہدات واضح ، صاف اور ایک حقیقت اور ٹھوس شکل میں تھے جن میں کوئی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں تھی اور ان مشاہدات میں صرف یہ باتیں نہ تھیں جو بتائی گئی ہیں بلکہ آپ کو اپنے رب کی بہت عظیم عظیم دوسری نشانیاں بھی بتائی گئیں اور اس کائنات کی حقیقت آپ کو بالکل کھول کر براہ راست دکھائی گئی۔
لہٰذا حضور ﷺ کے وحی وصول کرنے کا معاملہ ایک مشاہدہ ہے۔ حقیقی طور پر آپ نے عالم بالا کو دیکھا ہے۔ آپ یقین محکم سے یہ بات فرماتے ہیں۔ براہ راست آپ کا عالم بالا سے رابطہ ہے۔ یہ علم اور معرفت نہایت ٹھوس اور یقینی ہے۔ آپ نے حسی طور پر یہ رابطے قائم کئے ہیں۔ یہ سفر بھی حسی اور حقیقی ہے اور یہ تفصیلات جو دی جارہی ہیں یہ حقیقی ہیں تمثیلات نہیں ہیں اور تمہارے صاحب کی دعوت ایسے یقینی مشاہدات پر مبنی ہے اور تم جو انکار کررہے ہو تو ان باتوں کا کررہے ہو جو آپ کی دیکھی ہوئی ہیں اور نزول وحی میں شک کررہے ہو اور تمہارے صاحب کے بارے میں تم اچھی طرح جانتے ہو ، اسے صادق وامین مانتے ہو وہ تم میں کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں۔ تمہارا رب قسم اٹھا کر اس کی تصدیق اور توثیق کرتا ہے اور یہ تفصیلات دیتا ہے کہ اس وحی کی کیفیت کیا رہی اور یہ پیغام کس کے ہاتھوں پہنچ رہا ہے اور کہاں جبرائیل اور محمد ﷺ کی ملاقات ہوئی اور سدرہ پر جو کچھ تھا تو وہ تھا ہی ............
غرض یہ تو یقینی امر ہے جس کی طرف محمد ﷺ بلا رہے ہیں۔ اب ذرا تم غور کرو کہ تمہارے تخیلات اور مفتریات اور الٰہ کیسے لوگ ہیں اور ان کی افسانوی حقیقت کیا ہے تم جو لات ، منات اور عزیٰ کی عبادت کرتے ہو ان کی الوہیت کا ثبوت کیا ہے۔ تم جو دعویٰ کرتے ہو کہ لات منات اور عزی ملائکہ ہیں تو ان کو کس نے دیکھا ہے ؟ کیا ثبوت ہے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ کیا ثبوت ہے کہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش چلے گی ؟ دلیل وحجت بھی تو لاؤ ؟ آخر تمہارے ان اوہام خرافات اور کہانیوں اور افسانوں کی کیا دلیل ہے۔ کوئی عقلی یا نقلی دلیل۔