آیت 17{ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔ } ”اُس وقت محمد ﷺ کی آنکھ نہ تو کج ہوئی اور نہ ہی حد سے بڑھی۔“ یہاں پر دونوں انتہائی کیفیات کی نفی کردی گئی۔ انسان کی فطری اور طبعی کمزوری ہے کہ اگر اسے اچانک بہت تیز روشنی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ نظروں کو اس سے پھیرنے اور ہٹانے کی کوشش کرتا ہے یا پلک جھپک لیتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں بتایا گیا کہ حضور ﷺ نے انوار و تجلیاتِ اِلٰہیہ کا کھلی آنکھوں سے براہ راست مشاہدہ کیا اور نگاہ جما کر دیکھا۔ لیکن اس مشاہدے میں حد ادب سے تجاوز بھی نہیں کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس آیت کو اکثر و بیشتر لوگ سمجھ نہیں سکے۔ جبکہ میں نے اس کے مفہوم کو علامہ اقبال ؔکے اس شعر کی مدد سے سمجھا ہے : ؎عین ِوصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ ُ جو رہی میری نگاہ بےادب !یہ بالِ جبریل کی نظم ”ذوق و شوق“ کا شعر ہے۔ یہ نظم بلاشبہ علامہ اقبال کی شاعرانہ استعداد کی معراج ہے ‘ اگرچہ امت ِمسلمہ کے لیے پیغام کے اعتبار سے ان کی آخری عمر 1936 ئ کی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ نقطہ عروج کا درجہ رکھتی ہے۔ اس شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ میں وصال کے دوران ادب کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر محبوب کے حسن کا مشاہد کرنا چاہتا تھا مگر نظریں جما کر براہ راست دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ نہ تھا۔ یہاں اقبالؔ اپنی نظر کی ”بےادبی“ کو خود تسلیم کر رہے ہیں اور حد ادب سے تجاوز کرنے کی شدید خواہش کا بھی اعتراف کر رہے ہیں ‘ لیکن ساتھ ہی وہ اپنی معذوری کا بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے کا حوصلہ ان میں نہیں تھا۔ گویا صرف وہ حوصلے کے فقدان کی وجہ سے ”بےادبی“ کے ارتکاب سے بچے رہے۔ اب اس شعر میں پیش کیے گئے تصور کی روشنی میں غور کریں تو آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ کے تحمل اور حوصلے کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ نے ان انوار و تجلیات کو براہ راست دیکھا اور جم کر مشاہدہ کیا۔ لیکن دوسری طرف آپ ﷺ کے ضبط اور ”ادب“ کا کمال یہ تھا کہ ”حوصلہ“ ہوتے ہوئے بھی آپ ﷺ کی طرف سے ایک خاص حد سے سرموتجاوز نہ ہوا۔