ماکذب الفواد مارا (11) افتمرونہ علی مایری (35 : 21) ” نظر نے جو دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔ اب کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے “ نہ صرف نظر سے دیکھا ہے آپ نے بلکہ دل سے بھی دیکھا ہے اور نظر میں تو فریب نظر ہوسکتا ہے لیکن دل میں فریب ممکن نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا اور آپ کے قلب نے یقین کیا کہ یہ فرشتہ ہے۔ حامل وحی ہے ، اللہ کافر ستادہ ہے۔ آپ کی طرف تاکہ آپ کو وحی دے اور آپ تبلیغ کریں اور یہ جھگڑا اب ختم ہے کیونکہ آپ کے قلب نے اس حقیقت پر یقین کرلیا ہے اور آپ صادق وامین ہیں۔
پھر محمد ﷺ نے اس فرشتے کو صرف ایک ہی مرتبہ نہیں دیکھا۔ دوسری بار بھی دیکھا ہے۔
ولقد ........ الکبری (81) (35 : 31 تا 81) ” اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرة المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماوی ہے۔ اس وقت سدرہ پر چھارہا تھا جو کچھ چھارہا تھا نگاہ نہ چندھائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں “
یہ واقعہ واضح روایات کے مطابق شب معراج میں پیش آیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے قریب آئے اور وہ اس ہیئت اور خلقت میں تھے جس پر اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اس وقت یہ سدرة المنتہیٰ کے پاس تھے۔ سدرہ ایک درخت ہے۔ بیری کا درخت۔ المنتہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ جہاں کوئی حد آکر ختم ہوتی ہے اور وہیں جنت الماوی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تک شب معراج کو آپ کی سواری گئی۔ جہاں جاکر حضور اکرم اور جبرائیل (علیہ السلام) کی رفاقت ختم ہوئی۔ جہاں جبرائیل جاکر رک گئے اور حضرت محمد ﷺ اس سے بھی آگے گئے۔ اس مقام تک جو عرش ربی کے زیادہ قریب تھا۔ بہرحال یہ سب باتیں وہ ہیں جن کا تعلق عالم بالا اور عالم غیب سے ہے۔ اس کی حقیقت اللہ کو معلوم ہے یا اللہ کے بندے المصطفیٰ کو معلوم ہے۔ بس اسی قدر ہمیں روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی روایت نہ ہو تو یہ اس سلسلے میں عقل کے گھوڑے نہیں دوڑا سکتے۔ اس موضوع پر انسان وہی کچھ معلوم کرسکتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ سے ملے۔ جو ملائکہ کا بھی خالق ہے جو انسان کا بھی خالق ہے اور دونوں کے خصائص کو وہ خوب جانتا ہے۔
البتہ یہاں اللہ تعالیٰ سدرة المنتہیٰ کے کچھ حالات بتادیئے ہیں تاکہ بات یقینی ہوجائے۔ اس سفر کو یقینی اور تاکیدی بنانے کے لئے۔