اس پیراگراف میں ہم نہایت ہی بلند روشن اور پھڑپھڑانے والے افق پر ہیں جہاں حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک نے چند خوبصورت اور نورانی لمحات عالم بالا کے ساتھ گزارے۔ ایک نہایت ہی نرم ، دھیمی موجوں پر مشتمل اور ترکیب پانے والے ترنم ہیں۔ ہم ان پر کیف لمحات کے رنگ ڈھنگ اور اشارات سنتے ہیں۔ الفاظ ان کی موسیقیت اور ماحول سب ہی پر کیف ہیں۔
یہ واردات قلب محمد ﷺ کے وہ وہ لمحات ہیں جن میں آپ کی نظروں کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ہیں اور آپ عالم بالا سے ہدایات اور وحی لے رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ آپ کا قلب حفظ کررہا ہے۔ یہ لمحات کیسے تھے اس کا صحیح احساس تو صیقل شدہ قلب محمد ہی کو ہوگا لیکن اللہ کا کرم کہ اس نے ہم بندوں کے لئے اس واردات کو الفاظ میں بیان کردیا۔ نہایت ہی موثر انداز میں ایسی موسیقی کے ساتھ جو پانی کی طرح بہتی ہے جس میں تلمیحات کے رنگ ڈھنگ اور ماحول اور اشارات کو ہماری طرف منتقل کیا گیا ہے۔ یہ اس صیقل شدہ دل کا سفر تھا اور عالم بالا کی وسعتوں میں تھا۔ ایک ایک قدم کی تصویر ہماری نظروں میں آرہی ہے۔ ایک ایک منظر ، ایک ایک قدم اور اس انداز میں کہ گویا ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔
آغاز ایک قسم سے ہوتا ہے۔
والنجم اذا ھوی (35 : 7) ” قسم ہے تارے کی جب غروب ہو “ ستارہ غروب ہوتا ہے زمین کے قریب ہو کر اس کی قسم ہے اور جس بات پر قسم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل یوں تھے۔
وھو بالافق ........ ما اوحی (35 : 01) ” جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اس نے پہنچائی “ تو ستارے کی حرکت اور حضرت جبرائیل کی حرکت کے درمیان نہایت ہم آہنگی اور یکرنگی ہے۔ یوں اس منظر میں ماحول ، حرکت اور موزونیت ابتدا ہی سے چلتی ہیں۔
والنجم اذاھوی (35 : 1) ” قسم ہے ستارے کی جب غروب ہوا “ کی تفسیر میں مختلف تفسیریں نقل کی گئی ہیں۔ زیادہ فریب الفہم یہ تفسیر ہے کہ اس سے شعریٰ ستارہ مراد ہے کیونکہ بعض عرب اسے پوجتے تھے اور بعد میں اس سورة میں اس کا ذکر بھی آیا ہے۔
وانہ ھو ........ الشعری (35 : 94) ” اور وہی شعری کا رب ہے “ پرانے لوگ شعری ستارے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہ مشہور ہے کہ پرانے مصری یہ کہتے تھے کہ جب شعری اعلی افلاک کو عبور کرے تو نیل میں پانی کا طوفان آجاتا تھا۔ اس لئے وہ شعری کو دیکھتے رہتے تھے اور اس کی حرکت کو نوٹ کرتے تھے۔ ایرانیوں اور عربوں دونوں کی روایات میں اس کے بیشمار افسانے مشہور ہیں۔ لہٰذا یہاں ستارے سے مراد یہی شعری ہے اور یہاں قسم اور مقسم علیہ کے درمیان ہم رنگی بھی مقصود ہے جو اس ستارے کے غروب سے ظاہر ہے۔ پھر یہاں یہ اشارہ بھی دینا مقصود ہے کہ ستارہ اگر بہت بڑا ہی کیوں نہ ہو ، وہ غروب اور غائب ہونے والا ہے۔ معبود تو وہ ہونا چاہئے جسے زوال و غروب نہ ہو۔ یہ تو تھی قسم جس بات پر قسم اٹھالی گئی ہے وہ یہ ہے۔