undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا گیا :

وانا ........ یوحیٰ ” اور میں نے آپ کو چن لیا ہے لہٰذا جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اسے سنو “ اور یہ بھی کہا گیا تھا۔

والقیت ........ عینی ” اور میں نے اپنی طرف سے تم پر ایک محبت ڈال دی تاکہ تمہاری پرورش میری آنکھوں کے سامنے ہو۔ “ اور دوسری جگہ کہا گیا۔

واصطنعتک لنفسی ” میں نے تجھے اپنے لئے بنایا ہے “ یہ سب تعبیرات بتائی ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ نہایت ہی بلند تھا لیکن اس کے مقابلے میں حضور اکرم کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے وہ یہ ہیں :

فانک باعیننا (25 : 84) ” تم ہماری نگاہ میں ہو ” یہ ایک ایسا انداز ہے جس میں خصوصی اعزاز نظر آتا ہے۔ خصوصی محبت نظر آتی ہے۔ اس میں ایسے رنگ ہیں جو نہایت ہی لطیف اور حسین ہیں۔ انسان ایسی تعبیرات پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم ان رنگوں میں زندگی بسر کریں اور صرف اس طرف اشارہ کردیں۔

اس محبت کے ساتھ دائمی ربط کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔

وسبح ........ النجوم (25 : 94) ” تم جب اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو ، رات کو بھی اس کی تسبیح کیا کرو اور ستارے جب پلٹتے ہیں اس وقت بھی۔ “ رات دن ، سونے سے اٹھتے وقت ، رات کے وقت اور صبح کو جب ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ یہ وہ اوقات ہیں جن میں اس محبت کے تعلق سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اللہ کی تسبیح ایک زاد راہ ہے۔ محبت الٰہی ہے اور دلوں کی مناجات ہے پھر محبت کرنے والے دل سے ہو تو اس کے کیا کہنے ؟