آیت 45{ فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ فِیْہِ یُصْعَقُوْنََ۔ } ”تو اے نبی ﷺ ! چھوڑے رکھیے ان کو ‘ یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دوچار ہوں جس میں ان پر بجلی کی کڑک گرے گی۔“ ”چھوڑ دینے“ کے مفہوم میں یہ حکم ابتدائی زمانے کی سورتوں میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ جیسے سورة المعارج میں فرمایا گیا : { فَذَرْھُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا حَتّٰی یُلٰـقُوْا یَوْمَھُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ۔ } ”تو اے پیغمبر ﷺ ! ان کو باطل میں پڑے رہنے اور کھیل لینے دو یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ان کے سامنے آموجود ہو“۔ سورة القلم میں فرمایا گیا : { فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّـکَذِّبُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِط سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لاَ یَعْلَمُوْنَ۔ } ”تو آپ مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دیں۔ ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی“۔ اس حکم کے تکرار کا مطلب یہی ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کے تمسخر ‘ استہزاء اور دیگر مخالفانہ ہتھکنڈوں کو بالکل خاطر میں نہ لائیں اور تبلیغ و تذکیر کے حوالے سے اپنا مشن جاری رکھیں۔ ان لوگوں کے معاملے کو آپ ﷺ مجھ پر چھوڑ دیں ‘ ان سے میں خود نمٹ لوں گا۔