وان یروا ........ مرکوم (25 : 44) ” یہ لوگ آسمان کے ٹکڑے بھی گرتے دیکھ لیں تو کہیں گے کہ یہ بادل ہیں جو امنڈے چلے آرہے ہیں “ مطلب یہ ہے کہ اگر ان پر عذاب بھیجا جائے اور یہ اسے دیکھ لیں کہ وہ ایک آسمان کے ٹکڑے کی شکل میں آرہا ہے اور ان پر گرنے ہی والا ہے اور اس سے وہ ہلاک ہونے والے ہیں تو پھر بھی یہ کہیں گے کہ سحاب مرکوم (کہ یہ بادل ہے جو امنڈتا چلا آرہا ہے) اور اس میں پانی ہے جو ان کے لئے سبب حیات ہوگا۔ یہ بطور ہٹ دھرمی ایسا کہیں گے۔ یہ کسی صورت میں بھی حق کو تسلیم کرنے والے نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں اس میں اشارہ قوم عاد کے واقعہ کی طرف ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ طوفان بادو باراں آرہا ہے تو کہا۔
عارض ممطرنا (یہ بادل ہے جو بارش برسائے گا) اور وہاں ان کو یہ جواب دیا گیا تھا۔
بل ھو ........ ربھا ” بلکہ یہ تو وہ چیز ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے ایک ہوا جس کے اندر درد ناک عذاب ہے یہ اللہ کے حکم سے ہر چیز کو نیست ونابود کرنے والی ہے۔ “
ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کی اس تصویر کشی کے بعد اگرچہ ان کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح عذاب بھی آجائے ، روئے سخن اب نبی ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے تاکہ ان کے معاملے سے ہاتھ جھاڑ کر اس انجام سے دو چار ہونے کے لئے چھوڑ دیں جس کا ذکر اس سورة کے آغاز میں آیا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے ایک سے ایک سخت عذاب ان کے انتظار میں ہے اور اللہ کے احکام کا انتظار کریں جو زبردست ہے اور جو آپ کا نگہبان ہے اور ہر وقت آپ پر نظر رکھتا ہے اور اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی حمد کرو۔ صبح کے وقت جب اٹھو اور رات کے وقت جب اٹھو اور اس وقت جب ستارے غائب ہوجائیں۔