ام لہ ........ البنون (25 : 93) ” کیا اللہ کے لئے تو بیٹیاں ہیں اور تم لوگوں کے لئے ہیں بیٹے “ ان کے خیال میں بیٹیاں بیٹوں سے کم درجے کی مخلوق تھیں۔ یہاں تک کہ جب کسی کو بتایا جاتا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو وہ غم پریشانی اور ناپسندیدگی کی وجہ سے سیاہ رو ہوجاتا تھا لیکن اپنے ان خیالات کے باوجود وہ اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت میں شرم محسوس نہ کرتے تھے۔ یہاں اللہ خود ان کے رواج اور رسم کے مطابق ان پر اعتراض کرتا ہے تاکہ وہ ذرا اپنے اس دعویٰ پر شرم محسوس کریں حالانکہ ان کا یہ خیال بھی غلط اور قابل اصلاح تھا۔
نبی ﷺ ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اسے وہ ایک بڑا بوجھ محسوس کرتے تھے حالانکہ آپدعوت خالص فی سبیل اللہ دیتے تھے۔ کوئی اجر طلب نہ فرماتے تھے نہ ان پر کوئی ٹیکس لگانا چاہتے تھے۔ ان کو چاہئے تو یہ تھا کہ اس مفت تعلیم کی وجہ سے حضور کے ساتھ احسان کرتے اور اگر قبول نہ کرتے تھے تو بھی شریفانہ انداز میں اسے قبول نہ کرتے۔ لہٰذا ان کا رویہ بالکل بےجواز ہے۔
0%