ام خلقوا ........ یوقنون (25 : 63) ” یا زمین و آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے “ یہ لوگ بھی اور ہر عقلمند شخص جو فطری انداز میں سوچتا ہو اس بات کا قائل نہیں ہوسکتا کہ زمین اور آسمانوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا یا بغیر خالق کے پیدا ہوئے یا خود انہوں نے یعنی کسی انسان نے ان کو پیدا کیا ہے۔ یہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر کسی کو دینا ہے اور ان کا حال تو یہ تھا کہ جب ان سے یہ سوال کیا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ اللہ نے پیدا کیا ہے لیکن یہ حقیقت ان کے ادراک میں اس قدر واضح نہ تھی کہ وہ ان کے دلوں اور ان کی سوچ اور ان کے طرز عمل میں کوئی تغیر پیدا کرے اور وہ کوئی واضح عقیدہ اپنائیں۔
بل لا یقنون (25 : 63) ” اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے “ اب تخلیق سے ذرا نیچے آکر ذرا کم درجے کا سوال کیا جاتا ہے چلو تم اپنے آپ کے اس کائنات کے خالق تو نہیں ہو تو کیا تم زمین کے خزانوں کے حوالدار ہو۔ کیا تم لوگوں کے معاملات کے اختیاری ہو۔ اللہ ہی ہے جو کسی کو تھوڑا ، کسی کو زیادہ دیتا ہے۔ وہی مدبر اور متصرف ہے اور یہی تفسیر قابل عمل ہے اور دل لگتی ہے۔ اسی صورت حالات کی جو اس جہان میں چلتی ہے جب اللہ کے خزانوں کے مالک یہ نہیں اور زمین کے معاملات ان کے اختیار میں نہیں تو پھر اللہ کے سوا اور کون ہے ؟
اب ایک درجہ اور نیچے آکر ان سے بات کی جاتی ہے۔ کیا تم قرآن کو منجانب اللہ نہیں سمجھتے تو اللہ کے ہاں تمہاری رسائی کا کوئی ذریعہ ہے جس سے تمہیں معلوم ہوگیا کہ قرآن وہاں سے نہیں ہے۔
0%