undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فلیاتوا ........ صدقین (25 : 43) ” اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اسی شان کا کلام بنالائیں “ قرآن کریم میں اس چیلنج کو بار بار دہرایا گیا ہے اور منکر اس کو قبول کرنے سے عاجز رہے ہیں بلکہ نہایت بےبس رہے ہیں اور اسی طرح قیامت تک لوگ اس سے عاجز رہیں گے۔ قرآن کریم میں ایک راز ہے جو شخص بھی اس کی آیات کو پہلی بار پڑھتا ہے وہ ان کے اندر ہر خصوصیت پاتا ہے۔ چاہے اس کو اس کے اعجاز کی وجوہات معلم ہوں یا نہ ہوں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کی عبارت میں ایک خاص قوت ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معانی اور تعبیرات کے علاوہ بھی قرآن کریم میں ایک خاص چیز ہے ۔ قرآن مجید کو سنتے ہی اس کی یہ خصوصیت ذہن پر اثر کرتی ہے۔ بعض لوگ اسے واضح طور پر پاتے ہیں اور بعض اسے ذرا اجمال اور غموض کے ساتھ لیکن ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ قرآن کی یہ خصوصیت کیا ہے اور اس کا سرچشمہ کیا ہے ؟ اس کا تعین کرنا مشکل ہے۔ یا یہ اثر قرآن کے معانی کا ہے یا قرآن مجید کی صورتوں ومناظر کا ہے یا یہ اثر کلامی ہے کہ انہی لغات سے بنائے ہوئے دوسرے کلاموں اور قرآن میں یہ فرق ہے یا یہ سب امور مجتمع طور پر اعجاز فراہم کرتے ہیں یا یہ کوئی ایسی چیز ہے جو ان سے بھی ماوراء ہے۔

یہ ایک راز ہے جو ہر قرآنی آیت میں پوشیدہ ہے جو بھی قرآنی آیات پڑھتا ہے وہ یہ راز محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد ہر کوئی اپنے ظن کے مطابق اس کے اسرار و رموز تلاش کرتا ہے اور یہ تدبر اور غور وفکر سے معلوم ہوتے ہیں اور پورے قرآن میں موجود ہیں۔

مثلاً یہ اعجاز اس کامل اور صحیح تصور کے اعتبار سے بھی ہے جو قرآن عقل وخرد کو دیتا ہے۔ وجود انسانی کی حقیقت کا تصور اس کائنات میں وجود کا تصور اور اس حقیقت ” اولی “ کا تصور جس سے تمام حقائق پھوٹتے ہیں یعنی اللہ کا تصور۔

پھر اس کے طریقے اور اسلوب میں بھی اعجاز ہے جس کے مطابق قرآن مجید انسان کے تصورات کی تعمیر کرتا ہے۔ قرآن کریم انسان کو فطری انداز سے خطاب کرتا ہے اور اس کا انداز تخاطب بھی مخصوص ہے۔ تمام زبانوں کے انسانی اسالیب کلام میں یہ انداز نہیں ہے۔ قرآن کریم انسانی دل اور عقل وخرد کو ہر پہلو سے پھیرتا ہے۔ اس کے اندر صالح افکار ہر جانب سے داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ انسان کے ساتھ اس طرح معاملہ کرتا ہے جس طرح ایک پوری طرح خبردار ذات کسی کے ساتھ کرتی ہے۔

قرآن کریم جو ہدایت دیتا ہے ان ہدایات کے اندر ایک زبردست جامعیت ہے۔ توازن ہے اور مکمل ہم آہنگی ہے اور یہ پورا کلام ایک ہی سطح اور ایک ہی معیار کا ہے۔ انسانی کلاموں میں یہ بات ہرگز نہیں پائی جاتی۔ انسانی کلام ایک حال پر نہیں ہوتے ایک سطح پر نہیں ٹھہرتے اور ہر پہلو سے معیار کو قائم نہیں رکھ سکتے اور توازن قائم کرنا تو ان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی معاملے میں کوئی زیادتی نہ ہو کوئی نقص نہ ہو۔ کوئی افراد وتفریط نہ ہو اور مکمل ہم آہنگی ہو اور کلام میں کسی جگہ تعارض یا تضاد نہ ہو نہ اصول میں نہ فروع میں۔

یہ ظاہری امور جن کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خفیہ معجزانہ اثر جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اس بات کے دلائل ہیں کہ یہ معجزانہ کلام ہے اور یہ چیزیں مل کر قرآن کو صفت اعجاز دیتی ہیں۔ قرآن کی صفت اعجاز وہ چیز ہے جس میں کوئی شخص اب کلام نہیں کرسکتا جس کے حواس بحال ہوں جو محترم ہو جو حقیقت پسند ہو اور جو قرآن کا مطالعہ قوت ، گہرائی اور وضاحت سے کرتا ہو اور قرآن مجید کا مطالعہ قلب سلیم کے ساتھ کرتا ہو۔

فلیاتوا ........ صدقین (25 : 43) ” اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اس شان کا ایک کلام بنا لائیں۔ “ دوسرا سوال خود ان کے وجود کی حقیقت کے بارے میں ہے۔ خود ان کے اپنے وجود کی حقیقت تو ایک حقیقت ہے جس سے وہ انکار نہیں کرسکتے کہ وہ ہیں اور قرآن کے بغیر بھی اگر وہ عقلمند ہیں تو وہ اس کی کوئی تفسیر کریں گے۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ایک خالق ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اس کی تعبیر ہم اللہ سے کرتے ہیں۔ وہ بذاتہ موجود ہے اور یہ انسان مخلوق ہیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%