جب آدمی ایک دعوت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بے دلیل پائے، اس کے باوجود وہ اس کو ماننا نہ چاہے تو وہ یہ کرتا ہے کہ داعی کی ذات میں عیب لگانا شروع کردیتا ہے۔ وہ کلام کے بجائے متکلم کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔ یہی وہ نفسیات تھی جس کے تحت پیغمبر کے مخاطبین نے آپ کو شاعر اور مجنون کہنا شروع کیا۔ وہ آپ کی دعوت کو دلیل سے رد نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے وہ آپ کے بارے میں ایسی باتیں کہنے لگے جن سے آپ کی شخصیت مشتبہ ہوجائے۔
مگر پیغمبر خدا سے لے کر بولتا ہے۔ اور جو انسان خدا سے لے کر بولے اس کا کلام اتنا ممتاز طور پر دوسروں کے کلام سے مختلف ہوتا ہے کہ اس کے مثل کلام پیش کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اور یہ واقعہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے کہ اس کا کلام خدائی کلام ہے، وہ عام معنوں میں محض انسانی کلام نہیں۔
0%