You are reading a tafsir for the group of verses 4:131 to 4:134
ولله ما في السماوات وما في الارض ولقد وصينا الذين اوتوا الكتاب من قبلكم واياكم ان اتقوا الله وان تكفروا فان لله ما في السماوات وما في الارض وكان الله غنيا حميدا ١٣١ ولله ما في السماوات وما في الارض وكفى بالله وكيلا ١٣٢ ان يشا يذهبكم ايها الناس ويات باخرين وكان الله على ذالك قديرا ١٣٣ من كان يريد ثواب الدنيا فعند الله ثواب الدنيا والاخرة وكان الله سميعا بصيرا ١٣٤
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا۟ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًۭا ١٣١ وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلًا ١٣٢ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ وَيَأْتِ بِـَٔاخَرِينَ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ قَدِيرًۭا ١٣٣ مَّن كَانَ يُرِيدُ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا فَعِندَ ٱللَّهِ ثَوَابُ ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًۭا ١٣٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” 131 تا 134۔

قرآن کریم میں احکام ونواہی کے بیان کے بعد بار بار یہ تعقیب آتی ہے کہ اللہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا مالک ہے ۔ یا یہ لفظ آتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ کے لئے ہے ۔ یہ دونوں امور ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں اس لئے کہ جو بادشاہ اور مالک ہوتا ہے ‘ اپنی مملکت میں امر اور نہی بھی اسی کا چلتا ہے ۔ اس کی مملکت میں جو لوگ بستے ہیں وہ اس کے محکوم ہوں گے اور اس کائنات میں چونکہ اللہ وحدہ مالک ہے تو اس وجہ سے اس دنیا میں صرف اس کا حکم چلے گا اور وہی لوگوں کے لئے قانون بنانے کا حقدار ہوگا ۔ دونوں امور دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

جن لوگوں پر کتاب اتاری گئی ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی وصیت کی ہے کہ وہ خدا سے ڈریں اور یہ وصیت اس نشاندہی کے بعد کی ہے کہ زمین اور آسمانوں کے اندر جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے اس لئے وصیت کا حق بھی اللہ کو ہے اور قانون سازی کا حق اللہ کو ہے لہذا اس سے ڈرو ۔

(آیت) ” وللہ ما فی السموت وما فی الارض ولقد وصینا الذین اوتوا الکتب من قبلکم وایاکم ان اتقوا اللہ “۔ (4 : 131)

(آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے ۔ تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب مت کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو)

واقعہ یہ ہے کہ جس کی حقیقی اقدار حاصل ہو لوگ اسی سے ڈرتے ہیں اور خدا ترسی ہی وہ واحد سبیل ہے جس سے ” دلوں “ کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ پھر خدا ترسی ہی وہ واحد سبیل ہے جس کے ذریعے کسی ” نظام “ کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اس کی جزئیات پر عمل کرایا جاسکتا ہے ۔ جو لوگ اللہ کی اس ملکیت میں اپنی حیثیت کو نہیں پہچانتے ان کو اللہ خبردار فرماتے ہیں کہ اللہ انہیں اس دنیا سے دور کر کے ان کی جگہ دوسری آبادی کو لا کر اپنی ملکیت میں بسا سکتے ہیں ۔

(آیت) ” وان تکفروا فان للہ ما فی السموت وما فی الارض وکان اللہ غنیا حمیدا (131) وللہ ما فی السموت وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا (132) ان یشایذھبکم ایھا الناس ویات باخرین وکان اللہ علی ذلک قدیرا (133) (4 : 131 تا 133)

(لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بےنیاز ہے ‘ ہر تعریف کا مستحق ۔ اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور کارسازی کے لئے بس وہی کافی ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے اور وہ اس کی پوری قدرت رکھتا ہے ۔ )

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو وصیت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو ‘ اگر وہ اللہ سے نہ ڈریں تو ان اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ اور وہ سب کفر کا رویہ اختیار کرلیں تو بھی اللہ کا اس میں کچھ نقصان نہیں ہے اس لئے کہ لوگوں کے کفر کی وجہ سے اللہ کی ملکیت میں سے کوئی چیز کم نہیں ہوتی ۔ (آیت) ” فان للہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ (4 : 131) (اللہ تو مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ) اور وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تمہیں یہاں سے چلتا کرے اور کسی اور کو لا بسائے ۔ وہ جو ان کو وصیت کرتا ہے تو وہ ان کی بھلائی کے لئے کرتا ہے ۔ اور ان کے حالات کو درست کرنے کے لئے کرتا ہے ۔

اسلام انسان کو جس طرح اس پوری کائنات کا سرتاج قرار دیتا ہے اور انسان کی کرامت کا اعلان کرتا ہے ‘ اور تمام زمین کی مخلوقات سے اسے برتر قرار دیتا ہے ‘ اسی طرح اگر انسان اللہ کا کفر کرلے تو اللہ انسان کو اس کائنات کی بدترین مخلوق قرار دیتا ہے اس لئے کہ وہ اللہ کے حکم سے منہ موڑتا ہے بلکہ وہ سینہ زوری کرکے اللہ کی صفت حاکمیت میں شریک ہو کر اپنے آپ کو یہاں کا حاکم قرار دیتا ہے ۔ اور وہ بغیر کسی استحقاق کے ایسا کرتا ہے ۔ اسلامی تصور حیات میں یہ دونوں باتیں برابر ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔

یہ آیات اس تعقیب پر اختتام کو پہنچتی ہیں کہ جو لوگ صرف دنیاوی مقاصد کے لالچ میں گرفتار ہیں ‘ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کا فضل بہت ہی وسیع ہے ۔ اللہ کے ہاں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے اور جو لوگ دنیا پر ہی نظریں جمائے بیٹھے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اپنی نظریں ذرا اونچی کریں اور دیکھیں کہ اللہ کے ہاں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ۔

(آیت) ” من کان یرید ثواب الدنیا فعند اللہ ثواب الدنیا والاخرۃ وکان اللہ سمیعا بصیرا “۔ (4 : 134)

(جو شخص محض ثواب دنیا کا طالب ہو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کے پاس ثواب دنیا بھی ہے اور ثواب آخرت بھی اور اللہ سمیع وبصیر ہے ۔ )

یہ امر ایک واضح حماقت حماقت اور ایک واضح کم ہمتی ہوگی کہ انسان دنیا اور آخرت دونوں کامیابی حاصل کرسکتا ہو اور اسے دنیا اور آخرت آخرت دونوں کا اجر مل سکتا ہو اور اس کامیابی کی ضمانت اسے اسلامی نظام زندگی دے بھی رہا ہو ‘ جو ایک واقعیت پسند عملی اور مثالی نظام ہے ‘ لیکن وہ اس گارنٹی کے باوجود صرف دنیا ہی کی طلب کرے ۔ اپنی پوری ہمت دنیا طلبی ہی میں لگا دے اور بالکل اسی طرح زندگی بسر کرے جس طرح حیوان ‘ چوپائے اور کیڑے مکوڑے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ شخص انسانوں کی طرح بسہولت زندگی بسر کرسکتا ہے اس طرح کہ اس کے قدم زمین پر چلتے ہوں اور اس کی روح آسمانوں میں سیر کرتی اور پھڑپھڑاتی ہو۔ اور اس طرح کہ وہ ایک جاندار موجود کی طرح جو اس کرہ عرض کے اوپر طبیعی قوانین کے مطابق تک ودو بھی کررہا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ عالم بالا کے ساتھ بھی اس کی زندگی کا ربط ہو ۔

غرض یہ جزئی اور فروعی احکام پوری طرح اسلامی نظام حیات کے اصولوں کے ساتھ مربوط ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں خاندانی نظام کی بہت ہی اہمیت ہے ‘ اس قدر اہمیت کہ ان احکام کو اس کائنات کے عظیم معاملات کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے اور ان تمام امور پر یہ تعقیب اور تبصرہ کیا گیا ہے کہ اگر تم لوگ اللہ کی ان وصیتوں کو قبول نہیں کرتے تو اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ختم کر دے اور تمہاری جگہ کوئی دوسری مخلوق آباد کر دے ۔ یہ ایک نہایت ہی خطرناک تبصرہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایک خاندان کے نظام کے معاملے میں وارد ہونے والے احکام بھی اسی قدر اہم ہیں جس قدر ادیان کو دی جانے والی عظیم ہدایات کی اہمیت ہے ۔