وان طايفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينهما فان بغت احداهما على الاخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء الى امر الله فان فاءت فاصلحوا بينهما بالعدل واقسطوا ان الله يحب المقسطين ٩
وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنۢ بَغَتْ إِحْدَىٰهُمَا عَلَى ٱلْأُخْرَىٰ فَقَـٰتِلُوا۟ ٱلَّتِى تَبْغِى حَتَّىٰ تَفِىٓءَ إِلَىٰٓ أَمْرِ ٱللَّهِ ۚ فَإِن فَآءَتْ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا بِٱلْعَدْلِ وَأَقْسِطُوٓا۟ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 9 { وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا } ”اور اگر اہل ِایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔“ اہل ایمان بھی تو آخر انسان ہیں۔ ان کے درمیان بھی اختلافات ہوسکتے ہیں اور کسی خاص صورت حال میں اختلافات بڑھ کر جنگ اور قتال پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت علی رض اور حضرت عائشہ رض کے درمیان یا حضرت علی رض اور امیر معاویہ رض کے درمیان اختلافات جنگ کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ چناچہ اگر کہیں ایسی صورت حال پیدا ہو تو امت مسلمہ کے تمام افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متحارب فریقین کے درمیان صلح کروائیں۔ اگر مسلمانوں کے دو فریق آپس میں لڑ رہے ہوں تو باقی مسلمان خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے ‘ کیونکہ اگر ان کے درمیان صلح نہ کرائی گئی تو مسلمانوں کی جمعیت اور طاقت میں رخنہ پڑے گا جس کی وجہ سے بالآخر مسلمانوں کی مجموعی طاقت اور غلبہ دین کی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا۔ اس لحاظ سے کسی بھی ملک یا خطہ کے مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو ختم کرانا باقی مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ { فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰٹہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ } ”پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کر رہا ہو تو تم جنگ کرو اس کے ساتھ جو زیادتی کر رہا ہے“ اگر فریقین میں صلح کرا دی گئی ‘ لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے ایک فریق اس صلح کی پابندی نہیں کر رہا اور دوسرے فریق پر زیادتی کیے جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری امت مسلمہ پر زیادتی کر رہا ہے اور پوری ملت اسلامیہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں پوری ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بھر پور طاقت استعمال کرے۔ { حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ } ”یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف۔“ { فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ } ”پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو عدل کے ساتھ اور دیکھو ! انصاف کرنا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔“ کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف طاقت کے استعمال کے دوران تم لوگ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھو۔ ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہیے۔ طاقت کا یہ استعمال صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی حد تک ہو۔ ظاہر ہے ایک زیادتی کو روکنے کے لیے مزید کسی زیادتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔