محمد رسول الله والذين معه اشداء على الكفار رحماء بينهم تراهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا سيماهم في وجوههم من اثر السجود ذالك مثلهم في التوراة ومثلهم في الانجيل كزرع اخرج شطاه فازره فاستغلظ فاستوى على سوقه يعجب الزراع ليغيظ بهم الكفار وعد الله الذين امنوا وعملوا الصالحات منهم مغفرة واجرا عظيما ٢٩
مُّحَمَّدٌۭ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَىٰهُمْ رُكَّعًۭا سُجَّدًۭا يَبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًۭا ۖ سِيمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ ٱلسُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْـَٔهُۥ فَـَٔازَرَهُۥ فَٱسْتَغْلَظَ فَٱسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِۦ يُعْجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةًۭ وَأَجْرًا عَظِيمًۢا ٢٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
پیغمبر اسلام کو ایک عظیم تاریخی کردار ادا کرنا تھا جس کو قرآن میں اظہارِ دین کہا گیا ہے۔ اس تاریخی کردار کے لیے آپ کو اعلیٰ انسانوں کی ایک جماعت درکار تھی۔ یہ جماعت حضرت اسماعیل کو عرب کے صحرا میں آباد کر کے ڈھائی ہزار سال کے اندر تیار کی گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنو اسماعیل کا یہ گروہ تاریخ کا جاندار ترین گروہ تھا۔ ان کی یہ بالقوہ صلاحیت جب قرآن سے فیض یاب ہوئی تو پروفیسر مارگولیتھ کے الفاظ میں، عرب کی یہ قوم ہیرووں کی ایک قوم (a nation of heroes) میں تبدیل ہوگئی۔ اس گروہ کی اہمیت خدا کی نظر میں اتنی زیادہ تھی کہ ان کے بارے میں اس نے پیشگی طور پر اپنے پیغمبروں کو باخبر کردیا تھا۔ چنانچہ تورات میں ان کی انفرادی خصوصیت درج کردی گئی تھی اور انجیل میں ان کی اجتماعی خصوصیت۔
اس گروہ کے فرد فرد کی یہ خصوصیت بتائی کہ وہ منکروں کے لیے سخت اور مومنوں کے لیے نرم ہیں۔ یعنی ان کا رویہ اصول کے تحت متعین ہوتا ہے، نہ کہ محض خواہشات اور جذبات کے تحت۔ شاہ عبدالقادر صاحب اس کی تشریح میں لکھتے ہیں ’’جوتندی اور نرمی اپنی خو ہو وہ سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندہی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ‘‘۔ اسی طرح ان کے افراد کا مزاج یہ ہے کہ وہ خدا کے آگے جھکنے والے اور اس کی عبادت اور ذکر میں لگے رہنے والے ہیں۔ خدا کی طرف ان کی توجہ اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اس کا نشان ان کے چہروں پر نمایاں ہورہا ہے۔ اصحاب رسول کی یہ صفات اس تفصیل کے ساتھ موجودہ محرف تورات میں نہیں ملتیں۔ تاہم کتاب استثناء ( 33:2 ) میں قدسیوں (Saints) کا لفظ ابھی تک موجود ہے۔
البتہ انجیل کی پیشین گوئی آج بھی مرقس ( 4:26-32 )اور متی ( 13:31-32 ) میں موجود ہے۔ یہ تمثیل کی زبان میں اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام کی دعوت ایک پودے کی طرح مکہ سے شروع ہوگی۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے ایک طاقتور درخت بن جائے گی۔ یہاں تک کہ اس کا استحکام اس درجہ کو پہنچ جائے گا کہ اہل حق اس کو دیکھ کر خوش ہوں گے اور اہل باطل غصه و حسد میں مبتلا ہوں گے کہ وہ چاہنے کے باوجود اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔