6 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ وہاں عمرہ ادا کرسکیں۔ آپ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تھے کہ مکہ کے مشرکین نے آگے بڑھ کر آپ کو روک دیا اور کہا کہ ہم آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بعد بات چیت شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ صلح قرار پایا۔
یہ معاہدہ بظاہر یک طرفہ طور پر مشرکین کی شرائط پر ہوا تھا۔ اصحاب رسول اس سے سخت کبیدہ خاطر تھے۔ وہ اس کو ذلت کی صلح سمجھتے تھے۔ مگر آپ حدیبیہ سے واپس ہو کر ابھی راستہ ہی میں تھے کہ یہ آیت اتری—’’ہم نے تم کو کھلی فتح دے دی‘‘۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس معاہدہ کے تحت یہ قرار پایا تھا کہ دس سال تک مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان لڑائی نہیں ہوگی۔ لڑائی کا بند ہونا در اصل دعوت کا دروازہ کھلنے کے ہم معنی تھا۔ ہجرت کے بعد مسلسل جنگی حالات کے نتیجہ میں دعوت کا کام رک گیا تھا۔ اب جنگ بندی نے دونوں فریقوں کے درمیان کھلے تبادلۂ خیال کی فضا پیدا کردی۔
اس طرح اس معاہدہ نے میدانِ مقابلہ کو بدل دیا۔ پہلے دونوں فریقوں کا مقابلہ جنگ کے میدان میں ہوتا تھا جس میں فریق ثانی برتر حیثیت رکھتا تھا۔ اب مقابلہ نظریہ کے میدان میں آگیا۔ اور نظریہ کے میدان میں شرک کے مقابلہ میں توحید کو واضح طور پر برتري حیثیت حاصل تھی۔ یہی اس معاملہ میں ’’سیدھا راستہ‘‘ تھا۔ یعنی وہ راستہ جس نے توحید کے علم برداروں کے لیے فتح کو یقینی بنایا۔