اب روئے سخن ایک نہایت ہی حساس موقف کی طرف آتا ہے۔ اس وقت تک پالیسی یہ تھی کہ جہاد و قتال سے رکو لیکن اب اللہ نے جہاد کا حکم دے دیا۔ یہ منافقین پر ایک ضرب تھی۔ وہ سخت دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ اب تو ان کے لئے چھپ کر رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ اب اگر وہ نفاق پر رہے اور اخلاص کے ساتھ اسلام قبول نہ کیا تو ان کا اندرون ظاہر ہوجائے گا ۔ کیونکہ جب جہاد کا فیصلہ ہوگا تو جنگ میں جانا ہوگا یا پیچھے رہنا ہوگا۔
ویقول الذین امنوا لو لا ۔۔۔۔۔۔ فاولی لھم (20) طاعۃ وقول معروف ۔۔۔۔۔۔ خیرا لھم (21) فھل عسیتم ۔۔۔۔۔ ارحامکم (22) اولئک الذین لعنھم ۔۔۔۔۔ ابصارھم (23) افلا یتدبرون ۔۔۔۔۔۔ اقفالھا (24) ( 47 : 20 – 24) “ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے) مگر جب ایک پختہ سورت نازل کردی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو۔ ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ اطاعت کریں اور صحیح باتیں کریں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انہی کے لئے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھرگئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے ؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرہ بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا ، یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں ؟ ”
اہل ایمان ، کسی نئی سورت کے نزول کا مطالبہ کرتے تھے ، یا تو اس لئے کہ ان کے دلوں میں ہر وقت یہ شوق رہتا تھا کہ وہ نئی نئی ہدایات لیتے رہیں۔ کیونکہ ان کو قرآن سے بےحد محبت تھی۔ وہ ہر نئی سورت میں علم و انس کا ایک نیا سامان اپنے لیے پاتے تھے۔ اور اس سے سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ نئے حالات میں مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کی ہدایات اور اجازت چاہتے تھے کہ اسلام کے لئے لڑ مرنے کی ہدایات ان کو دی جائیں۔
لو لا نزلت سورة (47 : 20) “ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی ”۔
فاذا انزلت سورة محکمۃ (47 : 20) “ جس میں جنگ کا ذکر کیا گیا ”۔ جس میں پھر کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی اور جو لوگ قتال سے پیچھے رہتے ہیں ، یا جہاد کاموں میں پیچھے رہتے ہیں ، ان کی مذمت بھی کردی گئی تو بیمار دلوں والے لوگ یعنی منافقین کی حالت غیر ہونے لگی اور وہ پردے کرنے لگے جن کے پیچھے چھپ کر یہ سازشیں کرتے تھے۔ ان کی جزع و فزع ، شور وفغاں اور سہمے اور ڈرے ہوئے ہونا یہاں تک کہ مارے خوف کے ان پر غشی کا طاری ہونا قابل دید تھا۔ قرآن کریم نے یہاں ان لوگوں کی تصویر یوں کھینچی ہے کہ گویا وہ ہیں سامنے اسکرین پر ۔
رایت الذین فی ۔۔۔۔۔۔ من الموت (47 : 20) “ تو تم نے دیکھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو ”۔ یہ اس قدر خوبصورت انداز تعبیر ہے کہ انسان اس کی نقل نہیں اتار سکتا۔ نہ کسی اور عبارت میں نہ کسی اور زبان میں اس طرز تعبیر کو اپنا سکتا ہے۔ خوف و ہراس کی یہ ایسی تصویر ہے کہ کپکی اور خوف سے بھی آگ بڑھ کر ان لوگوں پر گویا غشی کی حالت طاری ہو رہی ہے ۔ اور خیال میں ان لوگوں کی پھر عجیب و غریب حرکات سامنے آتی ہیں۔ اور وہ تمام نفوس و شخصیات کی تصاویر ذہن میں آجاتی ہیں جن کو پختہ ایمان نصیب نہ ہو ، جس کی فطرت سچی نہ ہو اور جن کے اندر اس قدر جذبہ جہاد نہ ہو جس کی وجہ سے وہ خطرے کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ لوگ مریض اور منافق ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اس قدر ذلت ، گراوٹ اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہ دوبارہ ان کو ایمان کی دعوت از سر نو دی جاتی کہ ایمان ہی حقیقی زاد راہ سے جس سے ارادے جواں ہوتے ہیں اور جس سے پاؤں مضبوط ہوتے ہیں۔
فاولی لھم (47 : 20) طاعۃ وقول ۔۔۔۔۔ خیرا لھم (47 : 21) “ ان کے لئے بہت یہ ہے کہ اطاعت کریں اور صحیح باتیں کریں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انہی کے لئے اچھا تھا ”۔ ہاں جس شرمندگی میں وہ مبتلا ہیں اس کے مقابلے میں ان کے لئے یہی اچھا تھا۔ وہ حیران ہیں کہ کیا کریں۔ پریشان ہیں کہ کیا ہوگا۔ اب ان کا نفاق تو چھپ نہ سکے گا۔ ان کے لئے بہتر پالیسی اب یہ ہے ۔