مثل الجنة التي وعد المتقون فيها انهار من ماء غير اسن وانهار من لبن لم يتغير طعمه وانهار من خمر لذة للشاربين وانهار من عسل مصفى ولهم فيها من كل الثمرات ومغفرة من ربهم كمن هو خالد في النار وسقوا ماء حميما فقطع امعاءهم ١٥
مَّثَلُ ٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى وُعِدَ ٱلْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَآ أَنْهَـٰرٌۭ مِّن مَّآءٍ غَيْرِ ءَاسِنٍۢ وَأَنْهَـٰرٌۭ مِّن لَّبَنٍۢ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُۥ وَأَنْهَـٰرٌۭ مِّنْ خَمْرٍۢ لَّذَّةٍۢ لِّلشَّـٰرِبِينَ وَأَنْهَـٰرٌۭ مِّنْ عَسَلٍۢ مُّصَفًّۭى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ وَمَغْفِرَةٌۭ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَـٰلِدٌۭ فِى ٱلنَّارِ وَسُقُوا۟ مَآءً حَمِيمًۭا فَقَطَّعَ أَمْعَآءَهُمْ ١٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ان کے حالات ، طرز زندگی اور سمت سفر سب جدا ہیں۔ اس لیے ممکن نہیں کہ وہ ایک پیمانے کے مطابق ناپے اور تولے جاسکیں۔ اور دونوں کا ایک ہی انجام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان فرق و امتیاز ہے۔ دونوں کا انجام بھی مختلف ہے۔

مثل الجنۃ التی ۔۔۔۔۔ حمیماً فقطع امعاء ھم (47 : 15) “ پرہیز گار لوگوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی ، نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لئے لذیذ ہوگی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی۔ اس میں ان کے لئے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔ (کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے ) ان لوگوں کی طرح ہوسکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا ؟ ”۔

جنت کی خوشیوں اور جہنم کے عذاب کی یہ نہایت ہی محسوس تصویر اور منظر قرآن کریم میں بار بار آتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ کبھی معنوی اور مجرد خالص خوشیوں کا ذکر بھی آتا ہے۔ کئی جگہ اس قسم کی خوشیوں کا ذکر بھی ہے جن کے اندر حسبات کا حصہ کم ہے ۔

اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ انسان کو خوب جانتا ہے۔ “ من خوب می ثناسم پیران پارسارا ”۔ اللہ کو معلوم ہے اور سب سے زیادہ معلوم ہے کہ انسان کے دلوں پر زیادہ اثر کس چیز کا ہوتا ہے ۔ ان کی تربیت کس طرح ممکن ہے۔ ان کے لئے کون سی نعمتیں بہتر ہیں اور ان کے لئے کون سی مناسب ہیں۔ پھر انسانوں کے بھی کئی مدارج ہیں ، نفوس انسانی کے بھی کئی رنگ ہیں۔ مختلف مزاج ہیں۔ یہ سب انسان ہیں۔ انسانیت میں برابر ہوتے ہوئے بھی رنگ ، مزاج اور خواہشات میں اختلاف ہے۔ اس لیے اللہ نے اپنے فضل و کرم اور انعامات میں بھی تنوع رکھا ہے۔ اور ہر کسی کو اس کی خواہش کے مطابق دیا ہے اور دے گا۔ وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے۔

انسانوں میں سے ایسے بھی ہیں جن کی اصلاح کے لئے نتھرے ہوئے پانی کی نہریں ، دودھ کی نہریں جن کا ذائقہ بدلا ہوا نہ ہو۔ عسل مصفی کی نہریں ، اور لذیذ شراب کی نہریں مناسب ہیں ، یہی ان کی خواہش ہے۔ پھر یہ لوگ اس قسم کے پھل کو پسند کرتے ہیں ، پھر رب کی مغفرت ، لہٰذا اللہ نے ایسے ہی لوگوں کی تربیت کے لئے ان کی خواہشات کے مطابق یہ انعامات رکھے ہیں۔ اور انہیں کے بارے میں ہے۔

لھم فبھا ما یشاءون “ یہی ان کے لئے مناسب ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی بندگی ان انعامات کے شکر کی وجہ سے کرتے ہیں جو لا تعداد ہیں ، بعض ایسے ہیں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ کی بندگی کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں ، یا پھر وہ اس بات سے شرم محسوس کرتے ہیں کہ اللہ ان کو ایسی حالت میں دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی بندگی پر جنت کی لالچ نہیں رکھتے۔ اور دوزخ کے ڈر سے نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو انعامات کی پرواہ نہیں ہوتی۔ نہ سزا کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تربیت اور جزاء کے لئے بھی اللہ نے ایک معیار رکھا ہے۔

ان الذین امنوا ۔۔۔۔۔ الرحمن ودا “ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے خدائے رحمٰن محبت پیدا کردے گا ”۔ اور ان کو یہ یقین بھی ہوگا۔

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر “ یہ سچائی کے مقام پر صاحب اقتدار بادشاہ کے پاس ” کرسی نشین ہوں گے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ اس قدر نماز پڑھتے تھے کہ پاؤں مبارک سوچ جاتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ اس قدر عبادت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا “ عائشہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ”۔ (مسلم)

رابعہ عدویہ فرماتی ہیں ، اگر نہ جنت ہوتی اور نہ آگ ہوتی تو کیا کوئی اللہ کی عبادت نہ کرتا اور کوئی اللہ سے نہ ڈرتا ؟ انہی سے سفیان ثوری نے ان کے ایمان کی حقیقت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا “ میں نے اللہ کی بندگی اس کی آگ کی ڈر کی وجہ سے نہیں کی اور نہ اس کی جنت کی لالچ کی وجہ سے کی کہ میں ایک برے مزدور کی طرح بن جاؤں کہ محض لالچ میں کام کروں ”۔

بہرحال انسانوں میں سے بعض کا یہ رنگ ہے اور بعض کا وہ رنگ۔ اور اللہ نے دونوں کے لئے مایشاؤن کے مطابق انعامات رکھے ہوئے ہیں۔ جو ان کے مزاج کے مطابق ہیں۔ اور جن سے ان کی تربیت ہوتی ہے۔

یہ بات نظر آتی ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کی جوں جوں تربیت کی ، اس کی ساتھ ساتھ وسائل تربیت بھی زیادہ لطیف ہوتے گئے اور مسلمانوں کے بدلتے ہوئے ذوق کے مطابق تبدیل ہوتے رہے کیونکہ انسان اپنی تاریخ میں انسانیت کے مختلف مدارج پر رہا ہے۔

بہرحال جزاء کی بھی دو قسمیں ہیں۔ یہ نہریں قسما قسم کے پھلوں کے ساتھ اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی کے ساتھ اور دوسری قسم :

کمن ھو خالد فی ۔۔۔۔۔ امعاء ھم (47 : 15) “ ان لوگوں کی طرح جو جہنم میں رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا ”۔ عذاب کی یہ صورت نہایت ہی حسی اور سخت ہے۔ یہ صورت اس سورت کی فضا کے ساتھ بہت ہی مناسب ہے۔ یہ اس دنیا میں بھی اس قدر مگن ہے کہ ماسوائے کھانے پینے کے اس کے سامنے کوئی اور اونچا نصب العین نہیں ہے۔ فضا ایسی ہے کہ سامان معیشت بھی حسی ہے۔ اس قوم کا مزاج بھی جانوروں کی طرح حسیات ہی کو دیکھتا ہے۔ اس لیے ان کے لئے سزا بھی ایسی ہی سخت ہے۔ گرم ترین پانی ان کو اس طرح پلایا جائے گا کہ نہ صرف یہ کہ منہ جل جائے گا بلکہ آنتیں تک کٹ جائیں گی اور دنیا میں یہ لوگ تھے بھی جانوروں کی طرح سخت۔

کس طرح یہ لوگ ایمان والوں کی طرح ہو سکتے جو نہایت مہذب ہیں۔ یہاں یہ پہلا مطالعہ ختم ہوتا ہے۔ جو سورت شروع ہوتے ہی ان لوگوں پر ایک تنقیدی حملے کی شکل میں شروع ہوا تھا۔ اور یہ اس طرح جاری رہا جس طرح دو کیمپوں کے درمیان جنگ جاری ہوتی ہے۔ آخر تک یہ کشمکش سخت الفاظ میں ہوتی رہی ہے۔