ذلک بان اللہ ۔۔۔۔۔ مولیٰ لھم (47 : 11) “ یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں ”۔
جس کا آقا اللہ ہو اور وہ اس کا مددگار ہو تو وہ اس کے لئے کافی ہے۔ یہ شخص کسی کا محتاج نہ ہوگا ، ہر کسی سے بےنیاز ہوجائے گا۔ ایسے شخص پر اگر مشکل حالات بھی آتے ہیں تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کی آزمائش ہو رہی ہے ۔ اور اس آزمائش کے بعد خیر ہی خیر ہے۔ یہ آزمائش اور یہ مشکلات اس لئے نہیں کہ اللہ نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے بھی نہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ بلکہ یہ ایک بندۂ مومن کی آزمائش ہوتی ہے۔ اور جس کا آقا اللہ نہ ہو تو اس کا کوئی آقا مراد ہوتا ہے اگرچہ وہ تمام جنوں اور تمام انسانوں کو آقا بنالے۔ آخر کار انسانوں پر بھروسہ کرنے والا نامراد ہوتا ہے اگرچہ دنیا کی تمام قوتیں اس کی حمایت پر مرکوز ہوں۔
اب ان لوگوں کے سازوسامان جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ان لوگوں کے سازوسامان کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے جنہوں نے کفر کیا۔ یہ دونوں گروہ جو اس وقت باہم برسر پیکار ہیں ان کے درمیان فرق کیا ہے ؟ اور ان کے سازو سامان کے درمیان فرق کیا ہے ؟