آیت 33 { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیََ الْمَوْتٰی } ”کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور ان کی تخلیق سے تھکا نہیں ‘ وہ اس پر قادر ہے کہ ُ مردوں کو زندہ کر دے !“ یہ عقلی دلیل ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کو ”خالق“ تو مانتا ہے مگر بعث بعد الموت پر یقین نہیں رکھتا۔ سورة قٓکی آیت 15 میں بھی ایسے ”فلسفیوں“ سے سوال کیا گیا ہے : { اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ } کہ کیا ہم کائنات اور اس کی مخلوقات کو ایک دفعہ تخلیق کرنے کے بعد تھک گئے ہیں ؟ کیا اب ہماری تخلیقی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں ؟ اور کیا مزید نئی چیزیں بنانے کی ہماری صلاحیت اب ختم ہو کر رہ گئی ہے ؟ { بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ } ”کیوں نہیں ‘ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“