3

درس نمبر 240 ایک نظر میں

اس سورت کا یہ آخری سبق ہے اس سورت کے موضوع کی وضاحت کے لئے یہ ایک نئی وادی میں سفر ہے۔ ایک واقعہ کہ جنوں نے قرآن کی دعوت کو سنا۔ تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ خاموشی سے سنو۔ اور سن کر یہ طے کیا کہ ہم ایمان لاتے ہیں۔ وہ ایمان لائے اور اپنی قوم میں جا کر انہوں نے دعوت دین کے کام کا آغاز کردیا۔ اپنی قوم کو عذاب جہنم سے ڈرانا اور جنت کی خوشخبری دینا شروع کردیا۔ اور انہوں نے اپنی قوم کو متنبہ کیا کہ اگر تم نے منہ موڑا اور گمراہی اختیار کی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے

جنوں کی خبر کو یہاں اس انداز سے پیش کرنا اور یہ دکھانا کہ قرآن مجید کا ان کے دلوں پر کس طرح اثر ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا خاموش ہو کر سنو ، پھر جس گہرے تاثر کے ساتھ انہوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنی قوم کے سامنے پیش کیا۔ یہ سب امور انسانی دلوں کو متاثر کرنے والے ہیں کیونکہ اصل میں تو قرآن انسانوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جنوں کے تاثرات جس طرح قرآن نے قلم بند کئے ہیں ، وہ بہت ہی پر تاثیر انداز ہے۔ خصوصاً جبکہ جن بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹھیک موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہ تعلیمات آرہی ہیں۔ قرآن کا اشارہ یہ ہے کہ اس حقیقت کو جنوں نے تو پالیا مگر انسان اس سے غافل ہیں کہ قرآن جو دعوت دے رہا ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد پہلی دعوت ہے۔ چناچہ یہ بات پوری سورت کے مضمون کے ساتھ گہرا ربط اور مناسبت رکھتی ہے۔ پھر جنوں نے بھی اس کائنات کی کھلی کتاب کی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تعلیمات قرآن کی تصدیق خلق سموات وارض سے ہو سکتی ہے۔ اور یہی تخلیق کائنات دوبارہ تخلیق پر بھی شاہد عادل ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس پر انسانوں نے ہمیشہ بحث اور جدال کیا ہے۔

ویوم یعرض الذین کفروا علی النار (46 : 34) “ جس روز یہ کافر آگ کے سامنے لائے جائیں گے ”۔ آخر میں نبی ﷺ کو وصیت کی جاتی ہے کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کریں اور ان پر عذاب لانے کے لئے جلدی نہ فرمائیں اور ان کو چھوڑ دیں۔ قیامت کی گھڑی قریب ہے۔ اور جس دن برپا ہوگی تو وہ کہیں گے ہم تو دنیا میں ایک گھڑی بھر ہی رہے ، بس ہلاکت سے قبل تبلیغ ہی کی گئی۔

جنوں نے نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ قرآن کو سنا اور اس کے بعد انہوں نے جو تبصرہ کیا اور قرآن نے یہاں اسے نقل کیا ، اس میں اسلامی نظریہ حیات کی تمام بنیادی باتیں آگئی ہیں۔ یعنی وحی الٰہی کی تصدیق ، تو رات اور قرآن کے تصورات میں وحدت ، یہ اعتراف کہ ہم ایمان لاتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں ، اور آخرت پر ایمان اور ان اعمال کی تصدیق جو جنت کو لے جانے والے ہیں اور ان اعمال کی تصدیق جو جہنم کو لے جانے والے ہیں اور ان اعمال کی تصدیق جو جہنم کو لے جانے والے ہیں۔ یہ اعتراف کہ اللہ پوری کائنات کا خالق ہے ، وہی مخلوقات کا ولی ہے۔ اور یہ کہ تخلیق کائنات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ یہی وہ مضامین ہیں جو اس پوری سورت میں لیے گئے ہیں اور سورت کے تمام اسباق کا موضوع ہیں۔ اور یہی موضوعات جنوں کی زبانی ، جو انسانوں کے مقابلے میں ایک الگ مخلوق ہے ، دوبارہ لائے گئے۔

ان آیات کی تشریح سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے ، یہ کہ جن کیا ہیں اور یہ کہ یہ واقعہ کہاں اور کب ہوا۔ قرآن مجید کی طرف سے یہ ذکر کرنا کہ جنوں کے کچھ لوگوں نے قرآن کو سنا اور اس کے بعد یہ کہا اور یہ کیا ، جنوں کے وجود کے لئے بس یہی کافی شافی دلیل ہے۔ اور نہ اس واقعہ کے بارے میں کچھ مزید کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ثابت ہونے کے بعد کہ جن اس قابل ہیں کہ رسول خدا کی زبانی عربی قرآن کو سنیں اور عربی زبان کو سمجھیں۔ اور یہ کہ وہ ایک مخلوق ہیں جو ایمان اور کفر کے قابل ہیں ، ہدایت اور ضلالت کے قابل ہیں ، جنوں کی حقیقت اور انہیں ایک مخلوق ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب اللہ ایک حقیقت کی تصدیق کردے تو اس کے بعد اس مخلوق کی حقیقت کو مزید ثابت کرنا ایک بےمعنی حرکت ہے۔ لیکن یہاں کلام کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسانی تصور میں اس کی وضاحت ہوجائے۔

ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات میں ، رازوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس کے اندر ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کی حقیقت ، صفات اور اثرات سے ہم بالکل واقف نہیں ۔ اور ہم جن قوتوں اور رازوں کے اندر رہتے ہیں۔ ان میں سے صرف چند رازوں اور بھیدوں سے ابھی تک ہم واقف ہوئے ہیں۔ بہرحال آئے دن ہم ان بھیدوں کے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ اور اللہ کی مخلوقات میں سے بعض مخلوق کے بارے میں دریافت کرلیتے ہیں۔ بعض کی ذات معلوم کرلیتے ہیں۔ بعض کی صفات ہمیں معلوم ہوجاتی ہے۔ اور بعض چیزوں کے تو صرف ہمارے اردگرد آثار ہی پائے جاتے ہیں۔

ابھی تک ہم نے اس کائنات کی شاہراہ پر ، جس کے اندر ہم رہتے ہیں ، اس کے رازوں کو معلوم کرنے کے سلسلے میں چند قدم ہی لئے ہیں۔ اس کائنات میں ہمارے آباء و اجداد رہ کر چلے گئے اور ہماری اولاد ان کی اولاد آنے والی ہے۔ ان سب لوگوں کو اس کائنات کے ایک چھوٹے سے ڈرے کے اوپر رہنا ہے۔ اگر اس پوری کائنات کے حجم اور وزن کا تصور کیا جائے تو اس حجم اور وزن میں اس زمین کی حیثیت ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔

آج تک جو معلومات ہم فراہم کرسکے ہیں ، اگر ان معلومات کو آج سے صرف پانچ سو سال پہلے کی حالت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو ہم جنوں سے بھی زیادہ بڑے بڑے عجائبات دریافت کرسکے ہیں۔ آج ہم ایٹم کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں۔ اگر آج سے پانچ سو سال پہلے کوئی ایسی باتیں کرتا تو لوگ کہتے کہ یہ مجنون ہے۔ یا کم از کم اسے جنات کے مقابلے میں زیادہ عجیب و غریب بات سمجھا جاتا۔

ہمارا علم و ادراک ہمارے انسانی حدود ادراک کے محدود دائرے کے اندر ہے اور ادراک کی یہ قوت ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمین پر وہ مقاصد پورے کرنے کے لئے دی گئی ہے جن کو ہم نے زمین کے اوپر منصب خلافت کے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں یہاں حاصل کرنا تھا۔ صرف اس محدود دائرے میں کہ زمین کی قوتیں ہمارے لیے مسخر ہوں ، ہمارے تابع ہوں تا کہ وہ فرائض ہم بحسن و خوبی ادا کرسکیں۔ ہمارے جس قدر انکشافات ہیں وہ اس دائرہ فرائض کے اندر ہیں اور ہم جس قدر بھی آگے بڑھ جائیں ہم اسی دائرے کے اندر ہی رہیں گے۔ یعنی اس دائرے کے اندر ہی رہیں گے جو اللہ نے ہمارے یہاں قیام اور خلافت ارضی کے لئے مقرر اور مقدر کردیا ہے۔ نہ اس سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت ہے۔

مستقبل میں ہم مزید انکشافات کریں گے۔ ہم بہت کچھ جانیں گے ، اس قدر ہمارے علوم میں اضافہ ہوگا کہ ایٹم کے راز ہمارے لیے بچوں کا کھیل بن جائے گا۔ لیکن ان انکشافات کے باوجود ہم اس محدود دائرے کے اندر ہی رہیں گے جو اللہ نے ہمارے لئے مقدر کردیا ہے۔ انسانی دائرے کے اندر رہیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا :

وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً “ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی قلیل ہے ”۔ یعنی ان اسرار اور محقیات کے مقابلے میں جو تمہارے علم سے باہر ہیں۔ صرف خالق کائنات ہی ان غائب باتوں کو جانتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا علم غیر محدود ہے۔ اور انسانوں کا علم اور اس کے ذرائع علم محدود ہیں۔

ولو ان ما فی الارض ۔۔۔۔۔۔ کلمات اللہ “ اگر زمین میں جس قدر درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر کو سات اور سمندر سیاہی بن کر مدد کے لئے آپہنچیں تو اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں ”۔

اگر بمقابلہ علم الٰہی ہماری حالت یہ ہے تو ہم صرف اپنی لا علمی کی بنا پر بالجزم نہ کسی بات کی نفی کرسکتے ہیں اور ۔۔۔۔ نہ ان کا تصور کرسکتے ہیں اور نہ عدم تصور۔ یہ بہرحال اللہ کی کائنات کے غائب علاقوں کی باتیں ہیں اور کائنات کی ان قوتوں اور ان اسرار میں سے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس بنا پر ایسی کسی شے کے بارے میں ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں جو ہمارے علم سے باہر ہے۔ جبکہ ابھی تک ہمیں خود اپنی ذات سے متعلق مکمل اسرار و رموز کا پتہ نہیں ہے کہ ہماری روح اور ہماری قوت مدرکہ کے حالات کیا ہیں۔ حقیقت جن تو بڑی بات ہے۔ بعض ایسے راز بھی ہو سکتے ہیں جن کا ہمارے لیے انکشاف مقدر ہی نہ کیا گیا ہو۔ مثلاً وہ تمام حقائق جن کے وجود کی قرآن نے اطلاع دی ہے ، یا آثار بتائے ہیں کیونکہ ان حقائق کا جاننا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے اس لیے کہ اس زمین پر انسان نے جو فریضہ ادا کرنا ہے اس کے لئے اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

اگر اللہ نے اپنے کلام کے ذریعہ ہمیں کچھ اسرار بتا دئیے ہیں ، اور ان تک ہم اپنے تجربات کے ذریعے نہیں پہنچے تو ہمارا فرض یہ ہے کہ جس قدر علم اللہ نے دے دیا ہے (بذریعہ اطلاع) ہم شکر اور تسلیم و رضا کے ساتھ اسے قبول کرلیں۔ ہم اس کے بارے میں اسی قدر عقیدہ رکھیں جس قدر اللہ نے بتا دیا ہے۔ نہ اس میں کمی کریں اور نہ اس میں اضافہ کریں۔ اور یہ کہیں کہ اس سلسلے میں حقیقت جاننے والے نے ہمیں اسی قدر بتایا ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا۔ دوسرا کوئی ذریعہ علم بھی نہیں ہے اور اس میدان میں ہمارا تجربہ بھی نہیں ہے۔

قرآن کریم کی ان آیات سے اور سورت جن کی آیات سے (اور راجح بات یہ ہے کہ سورت جن بھی اسی واقعہ کے بارے میں ہے) اور ان نصوص سے جو قرآن کریم میں جگہ جگہ جنوں کے بارے میں وارد ہیں اور ان احادیث سے جو جنوں کے بارے میں وارد ہیں اور صحیح ہیں۔ ہمیں جو حقائق معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔

ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلوق ہے جسے جن کہا جاتا ہے۔ یہ مخلوق آگ سے پیدا شدہ ہے۔ کیونکہ قرآن نے ابلیس کے بارے میں یہ کہا ہے۔

انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین “ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے ”۔ اور یہ بھی قرآن بتاتا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا۔

الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ “ ماسوائے ابلیس کے یہ جنوں سے تھا۔ تو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ”۔ غرض ابلیس کی ماہیت جنوں سے ہے۔

اس مخلوق کی خصوصیات انسانوں سے مختلف ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ آگ سے ہی ہے۔ یہ کہ وہ لوگ کو دیکھتے ہیں اور لوگ انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

انہ یراکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم “ بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں دیکھتا ہے ، جبکہ تم ان کو نہیں دیکھ رہے ”۔ اور یہ کہ انسانوں کی طرح ان کی بھی سوسائٹیاں اور قبیلے ہیں۔ جس طرح آیت سابقہ میں قبیلے کا ذکر ہوا۔ اور یہ کہ یہ جن اسی زمین پر بستے ہیں اور بس سکتے ہیں۔ لیکن ان کی آبادیاں کہاں ہیں۔ اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے جب آدم اور ابلیس سے کہا کہ تم جنت سے نکلو اور زمین پر جاؤ تو الفاظ یہ تھے :

اھبطوا بعضکم لبعض۔۔۔۔۔۔ الی حین “ اترو ، تم میں سے بعض ، بعض دوسروں کے دشمن ہیں اور تمہیں حق ہوگا کہ زمین میں ٹھہرو اور ایک وقت تک متاع حیات کا بھی ”۔

وہ جن جو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کر دئیے گئے تھے ، وہ آپ کے لئے کام بھی کرتے تھے ، یہاں ان کو زندہ رہنے کی قدرت بھی دی گئی ہوگی تب ہی وہ کام کرتے ہوں گے۔ یہ کہ جن اس کرۂ ارض سے باہر بھی رہ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کی یہ بات نقل کی ہے۔

وانا لمسنا ۔۔۔۔ شدیداً وشھبا (8) وانا کنا نقعد ۔۔۔۔۔ شھابا رصدا (9) (72 : 8- 9) “ اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے ، اور یہ کہ پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمانوں میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے ”۔

یہ کہ یہ جن انسانوں کو متاثر کر کے گمراہ کرسکتے ہیں اور مسلمانوں میں سے اللہ کے بندوں پر تو ان کا اثر نہیں ہوتا۔ البتہ گمراہ لوگوں پر وہ اثرات ڈال سکتے ہیں کیونکہ :

قال فبعزتک ۔۔۔۔۔ منھم المخلصین “ اس نے کہا بس تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا ، ماسوائے ان میں ، تیرے مخلص بندوں کے ”۔ اس قسم کی تمام دوسری آیات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں ، البتہ یہ معلوم نہیں ہے کہ شیطانوں اور جنوں کی وسوسہ اندازہ کس طرح ہوتی ہے ۔ اور یہ کہ یہ جن انسانوں کی آواز سنتے ہیں۔ ان کی زبان کو سمجھتے ہیں کیونکہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن سنا ، اس کو سمجھا اور اس سے متاثر ہوئے۔

اور یہ کہ انسانوں کی طرح جن بھی ہدایت اور گمراہی کے قابل ہیں۔ کیونکہ جنوں نے خود یہ اعتراف کیا۔

وانا منا المسلمون ۔۔۔۔۔ تحروا رشدا (14) واما القسطون فکانوا لجھنم حطبا (14) (72 : 14- 15) “ اور یہ کہ ہم میں سے کچھ مسلم ہیں اور کچھ حق سے منحرف تو جنہوں نے اسلام اختیار کرلیا۔ انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں ”۔ اور یہ کہ پھر وہ اپنی قوم کی طرف گئے اور ان کو ڈرانے لگے اور ان کو دعوت ایمان دینے لگے۔ جبکہ انہوں نے خود ایمان قبول کرلیا۔ اور ان کو معلوم ہوگیا کہ ان کی قوم دولت ایماں سے محروم ہے۔

یہ باتیں تو جنوں کے بارے میں یقینی ہیں۔ اور یہی ان کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اور اس پر ہم جو اضافہ کریں گے اس پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی۔ رہا وہ واقعہ جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کی طرف راجح روایات کے مطابق سورت جن بھی اشارہ کر رہی ہے۔ تو اس بارے میں متعدد روایات وارد ہیں۔

امام بخاری نے مسدد سے ، مسلم نے شیبان ابن فرح سے انہوں نے ابو عوانہ سے اور امام احمد نے اپنی سند میں کہا : عفان سے انہوں نے ابو عوانہ سے ، ابوبکر بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں ابو الحسن علی ابن احمد ابن عیدان سے انہوں نے احمد ابن عبید الصفار سے انہوں نے اسماعیل قاضی سے ، انہوں نے مسدد سے انہوں نے ابو عوانہ سے انہوں نے ابو بشر سے انہوں نے سعید ابن جبیر سے کہ ابن عباس سے فرماتے ہیں : “ رسول اللہ ﷺ نے جنوں پر کلام الٰہی نہیں پڑھا۔ اور نہ ان کو دیکھا ہے۔ حضور ﷺ اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ عکاظ کی طرف جا رہے تھے۔ اس وقت شیاطین اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی اور ان پر شہاب ثاقب کی بارش کردی گئی۔ تو شیاطین اپنی قوم کی طرف واپس آگئے قوم نے کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تو انہوں نے کہا ، ہمارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی ہے۔ اور ہم پر شہاب ثاقب چھوڑے گئے ۔ تو انہوں نے کہا کہ تمہارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان جو رکاوٹ ڈال دی گئی ہے اس کی کوئی وجہ ہوگی تو چاہئے کہ زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل گئے یعنی اطراف عالم میں ، وہ معلوم کرنے لگے کہ وہ کیا سبب ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان پابندی لگ گئی۔ تو وہ گروہ جو تہامہ کی طرف جا رہا تھا ، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس وقت آپ نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار کی طرف جا رہے تھے۔ حضور ﷺ اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب ان جنوں نے قرآن سنا تو متوجہ ہو کر سننے لگے۔ تو انہوں نے کہا خدا کی قسم یہ ہے وہ حقیقی سبب جس کی وجہ سے تم پر آسمانوں کی خبریں لینے پر پابندی لگ گئی ہے۔ جب یہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹے تو انہوں نے یہ رپورٹ دی۔ فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا (1) یھدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احدا (2) (72 : 1- 2) “ اے ہماری قوم کے لوگو ، ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے ”۔ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی گئی۔

قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن (72 : 1) “ اے نبی ﷺ کہو میری طرف وحی بھیجی گئی کہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن کو غور سے سنا ”۔ حضور ﷺ کی طرف دراصل جنوں کے اقوال وحی کئے گئے۔

امام مسلم ، ابو داؤد اور ترمذی نے علقمہ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا میں نے حضرت ابن مسعود سے پوچھا کہ جنوں کی رات تم میں سے کوئی حضور ﷺ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے کہا : رات ہم میں سے کوئی بھی حضور ﷺ کے ساتھ نہ تھا۔ ہوا یوں کہ ایک رات ہم حضور ﷺ کے ساتھ تھے کہ حضور ﷺ غائب ہوگئے۔ تو ہم نے پہاڑیوں اور وادیوں میں آپ ﷺ کو تلاش کرنا شروع کیا۔ ہم نے کہا کہ حضور ﷺ کو کوئی چیز لے اڑی یا آپ ﷺ کو اچک لیا گیا۔ ہم نے یہ رات بہت ہی بری طرح گزاری۔ جب صبح ہوئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ حرا کی طرف سے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے کہا حضور ﷺ ہم نے رات کو آپ ﷺ کو تلاش اور آپ ﷺ کو نہ پایا ۔ اس وجہ سے ہم نے یہ رات اس قدر تکلیف میں گزاری جس قدر کوئی تکلیف سے کوئی رات گزار سکتا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جنوں کا ایک شخص دعوت لے کر آیا تھا۔ میں اس کے ساتھ چلا گیا۔ میں نے ان پر قرآن پڑھا تو یہ سن کر ہم نے کہا حضور ﷺ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں اور ہمیں ان کے آثار بتائیں اور ان کی آگ کے آثار بتائیں۔ اور جنوں نے آپ ﷺ سے اپنی خوراک کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : “ ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو جو تمہارے ہاتھ آئے اور جس پر زیادہ گوشت ہو وہ تمہاری خوراک ہے۔ اور ہر مینگنی یا لید تمہارے جانوروں کے لئے ہے ”۔ اس کے حضور ﷺ نے فرمایا “ لہٰذا ان دونوں چیزوں کے ساتھ استنجا نہ کرو ، کہ یہ تمہارے بھائیوں کی خوراک ہے ”۔

ابن اسحاق اور ابن ہشام نے جنوں کے واقعہ کو حضور ﷺ کے سفر طائف کے بعد نقل کیا ہے۔ حضور ﷺ نے طائف جا کر بنی ثقیف سے مدد چاہی۔ یہ آپ کے چچا ابو طالب کی موت کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس وقت آپ ﷺ پر اور مسلمانوں پر مکہ میں بہت ہی تشدد ہو رہا تھا۔ بنی ثقیف نے آپ ﷺ کی دعوت کو برے انداز میں رد کردیا اور جب آپ ﷺ واپس ہونے لگے تو بچوں اور نادانوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دونوں پاؤں مبارک پتھروں سے لہولہان ہوگئے۔ اور آپ ﷺ نے اس موقعہ پر یہ گہری اور موثر دعا فرمائی۔ “ اے اللہ میں تجھ ہی سے اپنی قوت کی کمزوری کی شکایت کرتا ہوں ، اپنی قلت تدبیر کی شکایت کرتا ہوں ، اور لوگوں پر اپنی کمزوری کی شکایت کرتا ہوں ، اے ارحم الراحمین ، تو کمزوروں کا رب ہے ، اور میرا رب ہے ، تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے ؟ کسی ایسے شخص کے جو مجھ پر حملہ آور ہو ؟ تو نے میرا معاملہ کسی دشمن کے حوالے کردیا ہے ؟ لیکن اے اللہ ، اگر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن تیرا دامن تو میرے لیے بہت وسیع ہے۔ میں تیرے چہرے کی روشنی میں پناہ لیتا ہوں جس نے تمام تاریکیوں کو روشن کردیا ہے۔ اور اس نور کی وجہ سے دنیا وآخرت اچھی ہوجاتی ہے۔ اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غصب ہو یا مجھ پر تیرا عذاب آجائے۔ تجھے اختیار ہے کہ تو مجھے مشقت میں ڈالے جب تک تو راضی نہ ہو۔ تیرے سوا کوئی قوت اور جائے پناہ نہیں ہے۔

کہتے ہیں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مکہ کی طرف لوٹنے لگے۔ جب آپ بنی ثقیف کی طرف سے کسی بھلائی سے مایوس ہوگئے۔ جب رات آپ ﷺ نخہ میں آئے تو رات کو آپ نماز کے لئے اٹھے تو اس وقت جنوں کا ایک گروہ آپ ﷺ کے پاس سے گزرا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ حضور ﷺ نے ان کی تعداد سات بتائی جو دوحصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کی بات توجہ سے سنی۔ جب حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو یہ جن اپنی قوم کی طرف چلے گئے اور ان کو ڈرانے لگے۔ یہ خود ایمان لائے تھے اور جو کچھ انہوں نے سنا ، اسے قبول کرچکے تھے۔ اللہ نے یہ کہانی حضور ﷺ پر نازل فرمائی۔

واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القران (46 : 29) “ اور جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تا کہ قرآن سنیں ”۔

ویجرکم من عذاب الیم (46 : 31) “ اور تمہیں عذاب الیم سے بچائے گا ”۔ اور سورة جن میں فرمایا قل اوحی الی انہ ۔۔۔۔ الی اخرہ (72 : 1) علامہ ابن کثیر نے روایت ابن اسحاق پر یوں تبصرہ کیا ہے “ یہ تو صحیح ہے لیکن ان کا کہنا کہ جنوں کے ساتھ خطاب بھی اسی رات کو ہوا۔ یہ بات قابل بحث ہے کیونکہ جنوں کا قرآن مجید سننا آغاز وحی کے زمانے میں تھا جس طرح حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے۔ اور حضور ﷺ کا سفر طائف تو اس وقت ہوا جب آپ کے چچا محترم حضرت ابو طالب فوت ہوگئے تھے۔ اور یہ وفات ہجرت سے ایک یا دو سال قبل ہوئی تھی۔ واللہ اعلم !

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کی روایت سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ کیونکہ یہ روایت پوری طرح نصوص قرآن کے ساتھ متفق ہے۔

قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن (72 : 1) “ اے پیغمبر ﷺ کہہ دے کہ میری طرف یہ وحی آئی ہے کہ جنوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآن کو غور سے سنا ”۔ یہ آیت قطعاً بتاتی ہے کہ اس واقعہ کا علم حضور اکرم ﷺ کو اس طرح ہوا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل فرمائی۔ اور یہ کہ آپ ﷺ نے جنوں کو دیکھا نہ تھا۔ اور نہ آپ ﷺ کو یہ احساس ہوا کہ جن سن رہے ہیں۔ پھر اسناد کے اعتبار سے بھی یہ روایت سب سے قوی ہے۔ اور ابن اسحاق کی روایت بھی اس کے ساتھ متفق ہے۔ جس طرح قرآن مجید نے ہمیں جنوں کی صفات میں بتایا کہ انہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم “ یہ اور اس کا قبیلہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے جبکہ تم انہیں نہیں دیکھ رہے ”۔ میں سمجھتا ہوں اس حادثہ کی تحقیق میں اس قدر بات کافی ہے۔

واذ صرفنا الیک نفرا ۔۔۔۔۔ قومھم منذرین (46 : 29) “ اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تا کہ قرآن سنیں۔ جب وہ اس جگہ پہنچے تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ”۔ یہ اللہ کی ایک خاص تدبیر تھی کہ اس نے جنوں کو قرآن کی طرف موڑ دیا۔ محض کوئی انفاقی بات نہ تھی۔ ان کی تقدیر میں یہ تھا کہ جن بھی نبی آخر الزمان کی رسالت سے اسی طرح خبردار ہوجائیں جس طرح وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت سے خبردار تھے اور ان میں سے ایک فریق آگ سے بچ جائے جسے شیطان اور جنوں کے لئے تیار کیا گیا ہے اور انسانی شیاطین کے لئے بھی۔

قرآن کریم نے ان کی تعداد کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سننے والے جنوں کی تعداد تین سے دس تک تھی اور قرآن نے یہ بھی بتا دیا کہ ان کے پردہ احساس پر قرآن کے کیا اثرات بیٹھے یعنی خوشی ، اچھا تاثر ، خضوع اور خشوع۔

فلما حضروہ قالوا نصتوا (46 : 29) “ اب وہ اس جگہ پہنچے ( جہاں تم پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ ”۔ یوں اس پورے عرصے میں وہ بڑی خاموشی سے سنتے رہے۔

فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین (46 : 29) “ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ”۔ یہ اثر بھی ان پر اس لیے ہوا کہ انہوں نے قرآن کو نہایت غور سے سنا تھا۔ خاموش ہو کر سنا اور آخر تک سنتے رہے۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو وہ فوراً اپنی قوم کے پاس گئے اور ان کے شعور نے وہ بات اپنا لی تھی جو اگر کسی کے شعور میں داخل ہوجائے تو وہ خاموش نہیں ہو سکتا۔ اور نہ اس کی تبلیغ اور لوگوں کے ڈرانے کے کام میں شف شف کرسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ جب کسی شخص کے احساس میں ایک نئی بات بیٹھ گئی ہو۔ اور اس کے احساسات کو ایک نہایت ہی موثر ، غالب اور چھا جانے والے نظریہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہو ، تو وہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے ، ہر جگہ اسی کی بات کرتا ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔