You are reading a tafsir for the group of verses 46:21 to 46:28
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 239 ایک نظر میں

یہ سبق گزشتہ دو اسباق سے بالکل مختلف موضوع پر ہے۔ گزشتہ اسباق میں انسانی قلب و نظر کو جن زاویوں سے لیا گیا تھا اس سبق میں ان سے مختلف بالکل ایک نیا پہلو لیا گیا ہے اس سبق میں مشرکین مکہ کو وادی احقاف کی سیر کرائی جاتی ہے کہ یہ وادی اور دوسری جو تباہ ہوئیں وہ مکہ کے اردگرد واقع تھیں۔ اور یہ لوگ ان واقعات سے پوری طرح باخبر تھے جو قوم عاد اور ان کے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) کو پیش آئے۔ انہوں نے بھی اپنے رسول سے وہی سلوک کیا تھا جو یہ حضرت نبی کریم ﷺ سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھی یہی اعتراضا کئے تھے جو یہ کر رہے تھے۔ اور حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی آداب نبوت کے حدود وقیود کے اندر ان کو جوابات دئیے تھے ، لیکن اہل مکہ کو معلوم ہے کہ ان پر اللہ کا کیسا سخت عذاب آیا۔ ان کی قوت اس عذاب کا مقابلہ نہ کرسکی۔ حالانکہ اہل مکہ سے وہ زیادہ قوی الجثہ تھے۔ ان کی دولت اور ثروت ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکی۔ حالانکہ وہ ان سے زیادہ دولت مند تھے۔ وہ انہی کی طرح آنکھیں ، کان اور دل و دماغ رکھتے تھے مگر انہوں نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ ان کے مقابلے میں وہ ذہنی لحاظ سے بھی اونچے تھے اور انہوں نے جو الہہ بنا رکھے تھے وہ بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔

غرض مشرکین مکہ کو خود اپنے اسلاف کے انجام کے سامنے کھڑا کر کے قرآن ان کا نقشہ ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے مکہ رسالت کا یہ ایک ہی سلسلہ اور شجرہ ہے ، ایک ہی دعوت ہے اور سنت الٰہیہ بھی ایک ہے۔ انہوں نے انکار کیا۔ ہلاک ہوئے ، تم انکار کرتے ہو ، ہلاکت کے مستحق بنتے ہو۔ عقیدۂ توحید کوئی نیا گھڑا ہوا عقیدہ نہیں ہے ، یہ دعوت نوح (علیہ السلام) سے ادھر تاریخ میں چلی آرہی ہے۔ زمان و مکان کے اختلاف سے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

درس نمبر 239 تشریح آیات

21 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 28

آیت نمبر 21 تا 28

احقاف ، حقف کی جمع ہے جس کے معنی ریت کے بلند ٹیلے کے ہیں ، اہل عاد کے مکانات جزیرۃ العرب کے جنوب میں حضر موت کے علاقے میں بلند ٹیلوں پر تھے۔

حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی عاد کی کہانی سنائیں اور یہ بتائیں کہ ان کے بھائی ہود نے بھی اسی طرح اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔ یہ اس لیے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت کے مقابلے میں قوم عاد کا رد عمل ایسا ہی تھا جس طرح اہل قریش آپ کی دعوت کی تکذیب کر رہے ہیں جس طرح آپ ان میں سے ہیں اسی طرح حضرت ہود بھی عاد ہی میں سے تھے مگر یہ لوگ ذرا سنبھلیں کہ دعوت حق کی تکذیب کے ویسے ہی نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ عاد کا علاقہ قریش کے قریب تھا اور ان کے واقعات سے وہ باخبر بھی تھے۔

عاد کے بھائی ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ڈرایا ، حضرت ہود بھی رسولوں میں سے کوئی پہلے رسول نہ تھے۔ ان سے پہلے بھی کئی اقوام میں رسول آچکے تھے۔

وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفہ (46 : 21) “ اور ایسے خبردار کرنے والے ان سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے ”۔ زمان و مکان کے اعتبار سے ان کے قریب بھی تھے اور ان سے دور بھی تھے۔ کیونکہ لوگوں کو انجام بد سے ڈرانے کا سلسلہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے جاری رکھا ، دعوت و رسالت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ یہ کوئی عجیب و غریب اور غیر معمولی بات تو نہ تھی۔

اور ان کو اس چیز اور اس دعوت اور اسی بات سے ڈراؤ جس سے تمام رسول ڈراتے رہے۔

الا تعبدوا ۔۔۔۔۔۔۔ یوم عظیم (46 : 21) “ کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ”۔ اللہ کی بندگی کرو ، یعنی عقیدہ بھی توحید کا رکھو اور پوری زندگی میں اطاعت بھی اللہ کے احکام کی کرو ، اور اگر تم اس دعوت کی مخالفت کرو گے تو اس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کے عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اشارہ یوم عظیم کے عذاب کی طرف ہے۔ یوم عظیم کا اطلاق قرآن مجید میں قیامت پر ہوتا ہے کہ قیامت کی خوفناکیاں عظیم و شدید ہیں۔

توجہ الی اللہ کی اس دعوت اور عذاب الٰہی سے ڈرانے کا انجام کیا ہوا۔

٭٭٭٭

قالوا اجئتنا ۔۔۔۔ من الصدقین (46 : 22) “ انہوں نے کہا “ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دے ؟ اچھا تو لے آ ، اپنا وہ عذاب جس سے ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے ”۔

انہوں نے اپنے بھائی پر بدگمانی کی اور الٹا ان کو چیلنج دے دیا کہ لاؤ وہ عذاب جس سے ڈراتے ہو اور اس کے ساتھ انہوں نے ان کا مذاق بھی اڑایا ۔ اور باطل پر اصرار کیا۔ حضرت ہود ایک نبی کی طرح یہ سب باتیں برداشت کرتے ہیں۔ کوئی بڑا دعویٰ نہیں کرتے اور اپنے حدود میں رہتے ہوئے کہتے ہیں۔

٭٭٭

قال انما العلم ۔۔۔۔ قوما تجھلون (46 : 23) “ اس نے کہا “ اس کا علم تو اللہ کو ہے ، میں صرف وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو ”۔

میں تو تمہیں عذاب سے ڈراتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں ڈراؤں۔ مجھے کیا معلوم کہ عذاب کب آئے گا اور عذاب کیسا ہوگا۔ ان امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔ میں تو اللہ کی طرف سے صرف پیغام پہنچانے والا ہوں۔ میں اللہ کے ساتھ علم اور قدرت میں شریک نہیں ہوں۔

ولکنی ارکم قوما تجھلون (46 : 23) “ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو ”۔ بہت ہی کم عقل نظر آرہے ہو ، اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوگی کہ ایک بھائی اور ناصح مشفق ڈرا رہا ہے اور جواب میں وہ چیلنج دیتے ہیں۔

حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان دعوت اسلامی کے سلسلے میں طویل مکالمہ اور مجادلہ ہوا تھا۔ یہاں قرآن کریم اسے مختصر کردیتا ہے کیونکہ یہاں جلد جلد ان کے سامنے انجام بد پیش کرنا ہے ، تا کہ ان کے چیلنج اور جلد بازی کا جواب دیا جاسکے۔

٭٭٭٭

فلما راوہ عارضا۔۔۔۔۔ عذاب الیم (24) تدمر کل شیء ۔۔۔۔۔۔ القوم المجرمین (25) (46 : 24- 25) “ پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے “ یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا ”۔۔۔۔ “ نہیں ، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آرہا ہے ، اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا ”۔ آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ”۔

روایت میں آتا ہے کہ ان کو شدید گرمی نے آلیا ۔ بارش رک گئی اور خشکی اور سخت گرمی کی وجہ سے علاقہ آگ اور دھواں بن گیا ۔ اس کے بعد بادل کا ایک ٹکڑا آیا۔ یہ لوگ بہت خوش ہوئے اور ان لوگوں نے وادیوں میں نکل کر اس بادل کا استقبال کیا۔ سمجھتے تھے کہ بس اب بارش ہوگی۔

قالوا ھذا عارض ممطرنا (46 : 24) “ یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا ”۔

اور لسان الحال نے ان کو یہ جواب دیا۔

بل ھو ما ۔۔۔۔۔ عذاب الیم (46 : 24) تدمر کل شیء بامر ربھا (46 : 25) “ نہیں بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آرہا ہے۔ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا ”۔ یہ نہایت تیز چلنے والی ہوا ہے۔ اور اس قدر سخت اور بےقابو ہے جس طرح کوئی سرکش جابر ہوتا ہے۔

ما تذر ۔۔۔۔۔ کالرمیم (51 : 42) “ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا ”۔ قرآن کی اس آیت میں ہوا کو ایک زندہ مخلوق کی طرح بتایا گیا ہے گویا وہ سنتی ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو نیست و نابود کر کے رکھ دو ۔

تدمر کل شییء بامر ربھا (46 : 25) “ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرنے والی ” یہ ہے وہ کائناتی حقیقت جس کا شعور قرآن کریم بار بار انسانوں کو دیتا ہے۔ یوں کہ یہ کائنات بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح ہم زندہ ہیں۔ اس کی تمام قوتیں شعور رکھتی ہیں۔ یہ تمام اشیاء اللہ کے احکام لیتی ہیں اور بجا لاتی ہیں۔ انسان بھی ان قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔ جب وہ ایمان لے آئے اور اس کا قلب معرفت الٰہی کے لئے کھل جائے تو پھر وہ بھی اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات قوتوں سے پیغام لے سکتا ہے۔ ان کے ساتھ ہمقدم ہو کر چل سکتا ہے۔ اور یہ قوتیں بھی اس کے ساتھ چل سکتی ہیں۔ یہ چیزیں بھی مومن کے ساتھ اس طرح ہمقدم ہو کر چلتی ہیں ، لیکن اس ہم آہنگی کی صورت وہ نہیں ہوتی جو زندہ انسانوں کی ہوتی ہے۔ درحقیقت گو ہر چیز زندہ ہے لیکن اس کی زندگی اس طرح نہیں جس طرح کی زندگی کے ہم عادی ہیں۔ ہم صرف زندگی کی ظاہری صورتیں ہی دیکھ سکتے ہیں اور اس ظاہر بینی کی وجہ سے باطن صورتیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔ جن لوگوں کی چشم بصیرت کھل جاتی ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں اور اس ظاہر بینی کی وجہ سے باطن صورتیں ہم نہیں دیکھ سکتے۔ جن لوگوں کی چشم بصیرت کھل جاتی ہے۔ وہ دیکھ سکتے اگرچہ ہماری یہ آنکھیں ان کو نہیں دیکھ سکتیں۔

بہرحال اس ہوا کو جو حکم دیا گیا اس نے وہ پورا کردیا۔ اس نے ہر چیز کو نیست و نابود کردیا۔

فاصبحوا لا یری الا مسکنھم (46 : 25) “ آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا ”۔ رہے وہ ، ان کے مویشی ، ان کے مال و اسباب تو ان میں سے کوئی چیز نہ رہی۔ خالی خولی مکانات و محلات رہ گئے ۔ کوئی زندہ شخص ان میں نہ تھا۔

کذلک نجزی القوم المجرمین (46 : 25) “ اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ” ۔ یہ سنت جاریہ ہے اور مجرموں پر نافذ ہونے والی تقدیر الٰہی ہے۔

٭٭٭

تباہی کے اس نقشے کو دیکھنے والوں کی طرف ایک نکتہ توجہ ! کہ دیکھو حضرت ہود (علیہ السلام) کی طرح تم بھی حضرت محمد ﷺ کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہو۔

ولقد مکنھم فبما ۔۔۔۔۔ بہ یستھزءون (46 : 26) “ ان کو ہم نے وہ کچھ دیا تھا جو تم لوگوں کو نہیں دیا ہے۔ ان کو ہم نے کان ، آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھے تھے ، مگر نہ وہ کان ان کے کسی کام آئے ، نہ آنکھیں ، نہ دل۔ کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ، اور اسی چیز کے ۔۔۔۔۔ میں وہ آگئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ”۔

یہ لوگ جن کو اللہ کی قوتوں میں سے ایک معمولی قوت ۔۔۔۔ کردیا ، ان کو ہم نے وہ قوت دی جو اے اہل قریش ، تم کو نہیں دی گئی۔ قوت ، مال ، علم اور سازوسامان میں وہ تم سے زیادہ تھے۔ اسی طرح سننے ، دیکھنے اور سوچنے کی قوت بھی ان میں تم سے زیادہ تھی۔ قرآن کریم قوت مدرکہ کو کبھی دل کہتا ہے ، کبھی دماغ کہتا ہے اور کبھی عقل کہتا ہے۔ سب سے مراد قوت مدرکہ ہوتی ہے۔ یعنی ان کے یہ حواس بڑے ترقی یافتہ تھے مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ انہوں نے راہ ہدایت دیکھنے میں ان کو معطل کردیا۔

اذ کانوا یجحدون بایت اللہ (46 : 26) “ کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے ”۔ اور جب انسان آیات الٰہیہ کا انکار کر دے تو اس کے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور اس کا احساس روشنی اور نور اور ادراک ختم ہوجاتا ہے۔

وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزءون (46 : 26) “ اور اسی چیز کے پھیر میں وہ آگئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ” یعنی عذاب الٰہی اور مصیبت۔

اس واقعہ سے قرآن ہر صاحب سمع و بصر اور قلب کو جو سبق دینا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی قوت والا اپنی قوت پر مغرور نہ ہو ، کوئی مالدار شخص اپنے مال پر مغرور نہ ہو ، کوئی صاحب علم اپنے علم پر مغرور نہ ہو۔ اس لیے کہ اللہ کی ان کائناتی قوتوں میں سے یہ ایک ہی قوت تھی جسے اللہ نے ان زبردست قوت والے ، مال والے اور علم والے لوگوں پر مسلط کیا اور انہیں ختم کر کے رکھ دیا۔ اور وہ یوں رہ گئے کہ صرف عالیشان ، مکانات ہی رہ گئے اور بس۔ اور جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو یہی ہوتا ہے۔

ہوا ایک ایسی قوت ہے جو مسلسل کام کرتی ہے اور یہ اللہ کے کائنات نظام کے مطابق چلتی ہے۔ اللہ جس وقت چاہے اسے بربادی پر مامور کر دے۔ عام طور پر تو وہ تعمیر کا کام کرتی ہے لیکن جب اللہ چاہے تو وہ ہلاک کرنا شروع کردیتی ہے۔ تمام کائناتی قوتیں جو ایک ڈگر پر کام کرتی نظر آتی ہیں ان کا سبب ان کے اندر یہی امر ربی ہے اور جب امر ربی دوسرا حکم دے تو یہ دوسرا کام کرتی ہیں جو کوتاہ نظر انسانوں کو خارق عادت نظر آتا ہے۔ نظام اسباب پیدا کرنے و الا اللہ ہے۔ وہ ہر چیز کو ، ہر حرکت کو ، ہر حادثہ کو ، ہر رحجان کو ، ہر شخص کو اور ہر کام کو اپنے احکام اور اپنے نقشے کے مطابق چلاتا ہے۔ اور جس جگہ بھی وہ کام ہوتا ہے اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمیں وہ کام خارق عادت نظر آئے۔

ہوا بھی دوسری کائناتی قوتوں کی طرح اپنا مقررہ وظیفہ سر انجام دیتی ہے۔ اسی طرح انسانی قوت اور دوسری کائناتی قوتیں جو انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہیں وہ کائناتی نقشے کے مطابق کام کرتی ہیں۔ جو نہی انسان حرکت میں آتا ہے یہ قوتیں بھی ان کے ہم قدم ہو کر حرکت کرتی ہیں۔ یوں وہ اسکیم اپنا کام کرتی ہے جو اللہ نے اس دنیا کے لئے مقرر کی ہے۔ انسان کو جو ارادے کی آزادی دی گئی ہے تو وہ اس کائنات نظام کے فریم ورک کے اندر ہے۔ جسے اس کائنات کا ناموس کلی کہا جاتا ہے جسے نظام قضا و قدر کہا جاتا ہے ۔ اور جسے سنت الہٰیہ کہا جاتا ہے جس کے اندر کوئی تغیر اور اضطراب نہیں ہوتا۔

٭٭٭

اب اس سبق کا خاتمہ ایک عام تبصرے پر ہوتا ہے جس میں عاد کے سوا دوسری بستیوں کا بھی ذکر ہے جو مکہ کے ارد گرد زمانہ ما قبل میں ہلاک ہوئیں۔

ولقد اھلکنا ۔۔۔۔ لعلھم یرجعون (27) فلولا نصرھم ۔۔۔۔۔۔ کانوا یفترون (46 : 28) “ تمہارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں ۔ ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا ، شاید کہ وہ باز آجائیں ۔ پھر کیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا لیا تھا ؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے ، اور یہ تھا ان کے جھوٹ اور ان بناؤٹی عقیدوں کا انجام جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے ”۔

جزیرۃ العرب میں کئی بستیوں کو ہلاک کیا گیا تھا ، جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی۔ احقات میں عاد ہلاک ہوئے۔ یہ جنوب میں تھے اور ثمود حجر میں ہلاک ہوئے جو شمال میں تھے اور سبا یمن میں ہلاک ہوئے اور اہل مدین شام کی راہ میں تھے۔ اسی طرح ذرا مزید شمال میں لوط کی بستیاں تھیں اور اہل عرب ان کی کہانیوں سے بھی واقف تھے اور ان بستیوں سے گزرتے رہتے تھے۔

ان آیات میں اللہ نے ان کی طرف ان کے انجام کی طرف اشارہ کیا کہ شاید مکہ کے مکذبین باز آجائیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو بار بار سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ اور اپنی گمراہی میں بڑھتے ہی چلے گئے ۔ تب ان پر ہمارے عذاب آئے ، قسم قسم کے عذاب ۔ ان کے بارے میں بعد کے آنے والے ان کی کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے رہے۔ عرب کے موجودہ مشرک بھی ان کو سنتے اور جانتے ہیں اور صبح و شام ان بستیوں میں سے گزرتے رہتے ہیں اور ان کے آثار ابھی تک قائم ہیں لیکن اے کاش کہ وہ عبرت لیتے۔

یہاں اب قرآن مجید مشرکین مکہ کو ایک حقیقت واقعہ بتاتا ہے۔ اللہ نے ان سے پہلے بھی مشرکین کو ہلاک کیا اور ان کو نیست و نابود کردیا اور ان میں سے ایک شخص بھی زندہ نہ رہا۔ لیکن وہ جن معبودوں کو پکارتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ یہ ان کو اللہ کے قریب تر لاتے ہیں تو ان ہستیوں نے کیوں نہ اللہ کے غصب کو کم کر کے ان کو ہلاکت سے بچایا۔

فلو لا نصرھم الذین ۔۔۔۔۔۔ قربانا الھۃ (46 : 28) “ پھر کیوں نہ ان ہستیوں نے ان کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا لیا تھا ”۔

نہ صرف یہ کہ ان ہستیوں نے ان کی مدد نہ کی بلکہ بل ضلوا عنھم (46 : 28) “ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے ”۔ اور انہوں نے ان لوگوں کو اکیلا چھوڑ دیا ، اور ان کو ان معبودوں تک بھیجنے کا راستہ بھی معلوم نہ ہوا تا کہ وہ ان کو پکڑیں اور اللہ کے عذاب سے بچنے میں ان کی مدد لیں۔

وذلک افکھم وما کانوا یفترون (46 : 28) “ اور یہ تھا ان کا جھوٹ اور ان بنیادی عقیدوں کا انجام جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے ”۔ یہ جھوٹ اور افتراء ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا یہ انجام ہے ۔ اور یہ ان معبود ان باطل کی حقیقت ہے۔ اور اس شرک اور عبادت کا یہ انجام ہے کہ یہ لوگ نیت و نابود کر دئیے گئے۔ لہٰذا مکہ کے ان مشرکوں کو جو ان معبودوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ انہیں خدا کے قریب کریں گے ، اپنے اس فعل کے بارے میں سوچ لینا چاہئے کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور ایسے عقائد کا انجام تاریخ میں کیا ہوتا رہا ہے

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%