You are reading a tafsir for the group of verses 46:17 to 46:20
3

والدین مومن ہیں اور لڑکا نافرمان ہے۔ وہ سب سے پہلے ان کی نیک روش کا انکار کرتا ہے۔ وہ نہایت ہی کرخت ، جارح اور قابل نفرت انداز میں ان سے مخاطب ہوتا ہے۔

اف لکما (46 : 17) “ اف ، تنگ کردیا تم نے ” اور اس کے بعد پورے دین کی بنیادی کا انکار کردیتا ہے یعنی آخرت کا ۔ اور ان الفاظ میں :

اتعدنی ان اخرج وقد خلت القرون من قبلی ( 46 : 17) “ کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے نکالا جاؤں گا ، حالانکہ مجھ سے پہلے نسلیں گزر چکی ہیں ”۔ یعنی وہ چلے گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی تو واپس نہیں آیا۔ حالانکہ قیامت کا تو وقت طے شدہ ہے اور لوگوں کا اٹھایا جانا اس طرح ہوگا کہ سب کو اکٹھا اٹھایا جائے گا ، ایک ایک آدمی کو نہیں۔ یہ بات تو اس کو کسی نے بھی نہ کہی تھی کہ ایک ایک آدمی کو یا ایک ایک نسل کو اٹھایا جائے گا۔ یہ کوئی مزاح تو ہے نہیں۔ یہ تو آخری حساب ہوگا اور سب کا ہوگا۔

والدین اس کے منہ سے یہ کفر سنتے ہیں ، اس کی ان باتوں سے پریشان ہوجاتے ہیں ، یہ اللہ کا بھی گستاخ ہے اور ان کے ساتھ بھی گستاخانہ رویہ رکھتا ہے۔ وہ سخت پریشان ہوجاتے ہیں۔ مارے خوف کے کانپ اٹھتے ہیں۔

وھما یستغیثن ۔۔۔۔ اللہ حق (46 : 17) “ ماں اور باپ اللہ کی دہائی دے کر ، کہتے ہیں “ ارے بدنصیب مان جا ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ” ۔ ان والدین کی باتوں سے ان کا خوف اور پریشانی ٹپکنی پڑتی ہے ، جبکہ یہ نافرمان بدبخت کفرو انکار پر مصر ہے۔

فیقول ما ۔۔۔۔۔ الاولین (46 : 17) “ مگر وہ کہتا ہے یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ باتیں ہیں ” ۔ اور اللہ پھر ایسے لوگوں کے انجام کو جلد ہی ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔

٭٭٭٭٭

اولئک الذین ۔۔۔۔۔ کانوا خسرین (46 : 18) “ یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہوچکا ہے ، ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کے جو ٹولے (اسی قماش کے ) ہو گزرے ہیں ، انہی میں یہ بھی جا شامل ہوں گے۔ بیشک یہ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگ ہیں ”۔

ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی عدالت سے ان کو خلاف فیصلہ صادر ہوجائے کیونکہ یہ منکر اور جھٹلانے والے ہیں اور اس قسم کے بہت سے لوگ موجود بھی ہیں اور گزر بھی گئے ہیں۔ انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنوں میں سے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں اللہ نے جو فیصلہ کردیا ہے ، وہ نافذ ہو کر رہے گا۔ اللہ کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔

انھم کانوا خسرین (46 : 18) “ بیشک یہ لوگ گھاٹے میں رہ جانے والے ہیں ”۔ اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوگا کہ انسان دنیا میں ایمان ویقین سے محروم ہوجائے اور آخرت میں اللہ کی رضا مندی اور جنت سے محروم ہوجانے اور پھر دائمی طور پر عذاب جہنم میں گرفتار ہوجائے۔

٭٭٭

اوپر جمالاً یہ بتا دیا گیا اہل ہدایت کو جزا ملے گی اور اہل ضلالت کو سزا ، اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ حساب میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔

ولکل درجت ۔۔۔۔ لا یظلمون (46 : 19) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔

ہر فرد کا اپنا اپنا مقام ہے اور ہر فرد کی اپنی اپنی کمائی ہے۔ اور ہر فرد کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ جن دو نمونوں کا اوپر ذکر ہوا۔ لوگوں میں بالعموم پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں قرآن مجید نے ان کا تعین دو کرداروں اور دو افراد کی طرح کیا ہے اور یہ انداز اچھی طرح ذہن نشین ہوتا ہے۔ یوں گویا ایک متعین مثال کو بیان کیا جا رہا ہو۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیات بعض متعین افراد کے بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی صحت کے درجے میں نہیں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ان دونوں کو دو کرداروں کا بیان یا دو نمونے سمجھا جائے۔ دونوں نمونوں کے بیان کے بعد قرآن کریم نے جو تبصرہ دونوں پر الگ الگ کیا ہے ، وہ عام ہے۔ پہلے نمونے کے بعد وہ یہ تبصرہ آیا ہے۔

اولئک الذین نتقبل ۔۔۔۔۔ کانوا یوعدون (46 : 16) “ اس طرح کے لوگوں سے ہم ان کے بہترین اعمال قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کر جاتے ہیں۔ یہ جنتی لوگوں میں شامل ہوں گے۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے ”۔ اور دوسرے کردار پر تبصرہ ہے۔

ولکل درجت ۔۔۔۔۔ لا یظلمون (46 : 19) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ان سب سے معلوم ہوتا ہے ان آیات میں دو متعین افراد کی طرف اشارہ نہیں بلکہ دو عام کرداروں کا تذکرہ ہے جو ہر زمان ومکان میں پائے جاتے ہیں۔

٭٭٭٭

اب ان کو قیامت کے ایک منظر کے سامنے کھڑا کر کے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے کہ یہ ہوگا وہ دن جس کا تم انکار کرتے ہو۔

ویوم یعرض الذین ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (46 : 20) “ پھر جب یہ کافر ۔۔۔۔ کے سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ، ان کی پاداش میں آج تم کو موت کا عذاب دیا جائے گا ”۔

یہ اسکرین پر سے بڑی تیزی سے گزر جانے والی ایک جھلک ہے ۔ گو ایک فیصلہ سنا دیا گیا لیکن دیکھنے والا گہرے غوروفکر میں ہوب جاتا ہے۔ یہ منظر اس وقت کا ہے جب آگ میں ڈالے جانے سے قبل وہ جہنم کے اوپر لائے جائیں گے۔ اس وقت ان کو بتا دیا جائے گا جس طرح مجرم کو سزا سے قبل سنا دیا جاتا ہے۔

اذھبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا واستعتعتم بھا (46 : 20) “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ”۔ دنیا میں ان کو اللہ نے بہت سی پاکیزہ چیزیں دی تھیں لیکن انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت ہی میں سب کچھ لٹا دیا اور آخرت کے لئے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ انہوں نے آخرت کا کوئی خیال نہ رکھا۔ اس طرح دنیا ہی میں چرچگ گئے جس طرح جانور چرچگ جاتے ہیں۔ اور کل کا خیال نہیں کرتے۔ نہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نہ حرام سے بچے اور نہ کوئی نیک کام کیا۔ ان کے اس رویہ کی وجہ سے اللہ نے ان کو دنیا ہی دے دی اور آخرت میں محروم کردیا۔ ان کی بڑی غلطی یہ تھی کہ دنیا کے ان مختصر لمحات کے عیش کے لئے انہوں نے آخرت کی نہ ختم ہونے والی طویل زندگی کو بھلا دیا جس کی طوالت کا تصور بھی انسان نہیں کرسکتا۔

فالیوم تجذون ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (46 : 20) “ اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا ” ۔ اس دنیا میں جو شخص بھی تکبر کرتا ہے وہ ناحق ہی کرتا ہے۔ تکبر اور گہرائی صرف اللہ کی چادر ہے۔ بڑائی کا حق اللہ کے بندوں کو نہیں ہے۔ نہ کم نہ زیادہ اور یہ توہین آمیز سزا اسی تکبر کے بدلے میں ہے اور جو لوگ فسق وفجور اختیار کرتے ہیں وہ بھی تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اسی لیے ان کو بھی توہین آمیز سزا دی جائے گی کیونکہ عزت تو اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور مومنین کے لئے مخصوص ہے۔

یہ سبق انسانوں کے یہ دو ماڈل پیش کر کے یہاں ختم ہوتا ہے ، جس میں منکرین آخرت ، بدکاروں اور مستکبرین فی الارض کے لئے توہین آمیز سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسے پڑھ کر فطرت سلیمہ رکھنے والے لوگ خدا خوفی پر آمادہ ہو کر سیدھی اور محفوظ راہ لیتے ہیں۔

آیت نمبر 17 تا 20

والدین مومن ہیں اور لڑکا نافرمان ہے۔ وہ سب سے پہلے ان کی نیک روش کا انکار کرتا ہے۔ وہ نہایت ہی کرخت ، جارح اور قابل نفرت انداز میں ان سے مخاطب ہوتا ہے۔

اف لکما (46 : 17) “ اف ، تنگ کردیا تم نے ” اور اس کے بعد پورے دین کی بنیادی کا انکار کردیتا ہے یعنی آخرت کا ۔ اور ان الفاظ میں :

اتعدنی ان اخرج وقد خلت القرون من قبلی ( 46 : 17) “ کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے نکالا جاؤں گا ، حالانکہ مجھ سے پہلے نسلیں گزر چکی ہیں ”۔ یعنی وہ چلے گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی تو واپس نہیں آیا۔ حالانکہ قیامت کا تو وقت طے شدہ ہے اور لوگوں کا اٹھایا جانا اس طرح ہوگا کہ سب کو اکٹھا اٹھایا جائے گا ، ایک ایک آدمی کو نہیں۔ یہ بات تو اس کو کسی نے بھی نہ کہی تھی کہ ایک ایک آدمی کو یا ایک ایک نسل کو اٹھایا جائے گا۔ یہ کوئی مزاح تو ہے نہیں۔ یہ تو آخری حساب ہوگا اور سب کا ہوگا۔

والدین اس کے منہ سے یہ کفر سنتے ہیں ، اس کی ان باتوں سے پریشان ہوجاتے ہیں ، یہ اللہ کا بھی گستاخ ہے اور ان کے ساتھ بھی گستاخانہ رویہ رکھتا ہے۔ وہ سخت پریشان ہوجاتے ہیں۔ مارے خوف کے کانپ اٹھتے ہیں۔

وھما یستغیثن ۔۔۔۔ اللہ حق (46 : 17) “ ماں اور باپ اللہ کی دہائی دے کر ، کہتے ہیں “ ارے بدنصیب مان جا ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ” ۔ ان والدین کی باتوں سے ان کا خوف اور پریشانی ٹپکنی پڑتی ہے ، جبکہ یہ نافرمان بدبخت کفرو انکار پر مصر ہے۔

فیقول ما ۔۔۔۔۔ الاولین (46 : 17) “ مگر وہ کہتا ہے یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ باتیں ہیں ” ۔ اور اللہ پھر ایسے لوگوں کے انجام کو جلد ہی ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔

٭٭٭٭٭

اولئک الذین ۔۔۔۔۔ کانوا خسرین (46 : 18) “ یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہوچکا ہے ، ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کے جو ٹولے (اسی قماش کے ) ہو گزرے ہیں ، انہی میں یہ بھی جا شامل ہوں گے۔ بیشک یہ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگ ہیں ”۔

ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی عدالت سے ان کو خلاف فیصلہ صادر ہوجائے کیونکہ یہ منکر اور جھٹلانے والے ہیں اور اس قسم کے بہت سے لوگ موجود بھی ہیں اور گزر بھی گئے ہیں۔ انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنوں میں سے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں اللہ نے جو فیصلہ کردیا ہے ، وہ نافذ ہو کر رہے گا۔ اللہ کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔

انھم کانوا خسرین (46 : 18) “ بیشک یہ لوگ گھاٹے میں رہ جانے والے ہیں ”۔ اس سے بڑا خسارہ اور کیا ہوگا کہ انسان دنیا میں ایمان ویقین سے محروم ہوجائے اور آخرت میں اللہ کی رضا مندی اور جنت سے محروم ہوجانے اور پھر دائمی طور پر عذاب جہنم میں گرفتار ہوجائے۔

٭٭٭

اوپر جمالاً یہ بتا دیا گیا اہل ہدایت کو جزا ملے گی اور اہل ضلالت کو سزا ، اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ حساب میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔

ولکل درجت ۔۔۔۔ لا یظلمون (46 : 19) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔

ہر فرد کا اپنا اپنا مقام ہے اور ہر فرد کی اپنی اپنی کمائی ہے۔ اور ہر فرد کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ جن دو نمونوں کا اوپر ذکر ہوا۔ لوگوں میں بالعموم پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں قرآن مجید نے ان کا تعین دو کرداروں اور دو افراد کی طرح کیا ہے اور یہ انداز اچھی طرح ذہن نشین ہوتا ہے۔ یوں گویا ایک متعین مثال کو بیان کیا جا رہا ہو۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیات بعض متعین افراد کے بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی صحت کے درجے میں نہیں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ان دونوں کو دو کرداروں کا بیان یا دو نمونے سمجھا جائے۔ دونوں نمونوں کے بیان کے بعد قرآن کریم نے جو تبصرہ دونوں پر الگ الگ کیا ہے ، وہ عام ہے۔ پہلے نمونے کے بعد وہ یہ تبصرہ آیا ہے۔

اولئک الذین نتقبل ۔۔۔۔۔ کانوا یوعدون (46 : 16) “ اس طرح کے لوگوں سے ہم ان کے بہترین اعمال قبول کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے درگزر کر جاتے ہیں۔ یہ جنتی لوگوں میں شامل ہوں گے۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے ”۔ اور دوسرے کردار پر تبصرہ ہے۔

ولکل درجت ۔۔۔۔۔ لا یظلمون (46 : 19) “ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تا کہ اللہ ان کے کئے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے۔ ان پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ان سب سے معلوم ہوتا ہے ان آیات میں دو متعین افراد کی طرف اشارہ نہیں بلکہ دو عام کرداروں کا تذکرہ ہے جو ہر زمان ومکان میں پائے جاتے ہیں۔

٭٭٭٭

اب ان کو قیامت کے ایک منظر کے سامنے کھڑا کر کے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے کہ یہ ہوگا وہ دن جس کا تم انکار کرتے ہو۔

ویوم یعرض الذین ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (46 : 20) “ پھر جب یہ کافر ۔۔۔۔ کے سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا : “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ، اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ، ان کی پاداش میں آج تم کو موت کا عذاب دیا جائے گا ”۔

یہ اسکرین پر سے بڑی تیزی سے گزر جانے والی ایک جھلک ہے ۔ گو ایک فیصلہ سنا دیا گیا لیکن دیکھنے والا گہرے غوروفکر میں ہوب جاتا ہے۔ یہ منظر اس وقت کا ہے جب آگ میں ڈالے جانے سے قبل وہ جہنم کے اوپر لائے جائیں گے۔ اس وقت ان کو بتا دیا جائے گا جس طرح مجرم کو سزا سے قبل سنا دیا جاتا ہے۔

اذھبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا واستعتعتم بھا (46 : 20) “ تم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ختم کرچکے اور ان کا لطف تم نے اٹھا لیا ”۔ دنیا میں ان کو اللہ نے بہت سی پاکیزہ چیزیں دی تھیں لیکن انہوں نے دنیا کی عیش و عشرت ہی میں سب کچھ لٹا دیا اور آخرت کے لئے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ انہوں نے آخرت کا کوئی خیال نہ رکھا۔ اس طرح دنیا ہی میں چرچگ گئے جس طرح جانور چرچگ جاتے ہیں۔ اور کل کا خیال نہیں کرتے۔ نہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نہ حرام سے بچے اور نہ کوئی نیک کام کیا۔ ان کے اس رویہ کی وجہ سے اللہ نے ان کو دنیا ہی دے دی اور آخرت میں محروم کردیا۔ ان کی بڑی غلطی یہ تھی کہ دنیا کے ان مختصر لمحات کے عیش کے لئے انہوں نے آخرت کی نہ ختم ہونے والی طویل زندگی کو بھلا دیا جس کی طوالت کا تصور بھی انسان نہیں کرسکتا۔

فالیوم تجذون ۔۔۔۔۔ کنتم تفسقون (46 : 20) “ اب جو تکبر تم زمین میں کسی حق کے بغیر کرتے رہے اور جو نافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کو ذلت کا عذاب دیا جائے گا ” ۔ اس دنیا میں جو شخص بھی تکبر کرتا ہے وہ ناحق ہی کرتا ہے۔ تکبر اور گہرائی صرف اللہ کی چادر ہے۔ بڑائی کا حق اللہ کے بندوں کو نہیں ہے۔ نہ کم نہ زیادہ اور یہ توہین آمیز سزا اسی تکبر کے بدلے میں ہے اور جو لوگ فسق وفجور اختیار کرتے ہیں وہ بھی تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اسی لیے ان کو بھی توہین آمیز سزا دی جائے گی کیونکہ عزت تو اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور مومنین کے لئے مخصوص ہے۔

یہ سبق انسانوں کے یہ دو ماڈل پیش کر کے یہاں ختم ہوتا ہے ، جس میں منکرین آخرت ، بدکاروں اور مستکبرین فی الارض کے لئے توہین آمیز سزا کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسے پڑھ کر فطرت سلیمہ رکھنے والے لوگ خدا خوفی پر آمادہ ہو کر سیدھی اور محفوظ راہ لیتے ہیں۔