3

آیت 15 { وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا } ”اور ہم نے تاکید کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں حسن سلوک کی۔“ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے احکام قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کے اس حکم میں اس حوالے سے خصوصی تاکید پائی جاتی ہے : { وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْکِلٰہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا } ”اور فیصلہ کردیا ہے آپ ﷺ کے رب نے کہ تم نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اس کے اور والدین کے ساتھ احسان کروگے۔ اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ‘ تو مت کہو ان کو اُف بھی اور مت جھڑکو ان کو ‘ اور بات کرو ان سے نرمی کے ساتھ۔“ اولاد کے لیے اگرچہ والد اور والدہ دونوں قابل احترام ہیں اور دونوں ہی ان کے حسن سلوک کے مستحق ہیں لیکن بچے کی پیدائش اور پرورش میں ماں کی مشقت اور ذمہ داری چونکہ زیادہ ہے اس لیے اولاد کی طرف سے خدمت اور حسن سلوک کے حوالے سے اس کا حق بھی فائق ہے۔ چناچہ سورة لقمان میں ماں کے خصوصی حق کا ذکر یوں فرمایا گیا : { وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ } ”اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں ‘ اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں کمزوری پر کمزوری جھیل کر ‘ پھر اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں۔“ والدہ کے خصوصی حق کی وضاحت ایک حدیث میں بھی ملتی ہے۔ ایک صحابی رض نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا : یا رسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر مستحق کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تمہاری والدہ !“ انہوں رض نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر تمہاری والدہ !“ یہ سوال انہوں نے چار مرتبہ دہرایا۔ جواب میں آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : تمہاری والدہ۔ جبکہ چوتھی مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا : ”پھر تمہارا والد !“ 1 البتہ اس حوالے سے یہ نکتہ مدنظر رہنا چاہیے کہ والدہ کے حق کی یہ فوقیت اخلاقی اعتبار سے ہے جبکہ قانونی طور پر والد کا حق ہی فائق ہے۔ مثلاً اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے : اَلْجَنَّۃ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَاتِ 2 لیکن اگر میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے تو اسلامی قانون اولاد پر والد ہی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ { حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا } ”اس کی ماں نے اسے اٹھائے رکھا پیٹ میں تکلیف جھیل کر اور اسے جنا تکلیف کے ساتھ۔“ { وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا } ”اور اس کا یہ حمل اور دودھ چھڑانا ہے لگ بھگ تیس مہینے میں۔“ ان دو جملوں میں ان تمام اضافی تکالیف اور مشقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جو والد کے مقابلے میں صرف والدہ کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بچے کی پیدائش اور پرورش میں والد بالواسطہ طور پر حصہ لیتا ہے جبکہ والدہ اس پورے عمل میں براہ راست کردار ادا کرتی ہے۔ دورانِ حمل کی گونا گوں پریشانیوں ‘ وضع حمل کی جان لیوا تکلیفوں اور رضاعت و پرورش کی صبر آزما مشقتوں کو وہ تن تنہا جھیلتی ہے۔ { حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً } ”یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے اور چالیس برس کا ہوجاتا ہے“ بچے کی جسمانی بلوغت تو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہوجاتی ہے ‘ لیکن یہاں ذہنی اور نفسیاتی بلوغت اور پختگی کا ذکر ہوا ہے اور اس کی کم از کم حد چالیس سال بتائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کو چالیس برس کی عمر میں منصب ِنبوت پر فائز کیا جاتا رہا ہے ‘ جیسا کہ خود حضور ﷺ کو بھی نبوت چالیس برس کی عمر میں ملی۔ البتہ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ استثناء کی مثالیں بھی ہیں۔ مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن میں ہی حکمت عطا کردی گئی تھی ‘ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت سے واضح ہے : { وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔ ”اور ہم نے اسے عطا کردی حکمت و دانائی بچپن میں ہی“۔ اور ایسا ہی معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی تھا۔ لیکن عام قاعدہ کے تحت ذہنی و نفسیاتی بلوغت maturity کی حد چالیس سال ہی ہے۔ اور اس حوالے سے آیت زیر مطالعہ میں ایک بچے کی مثال دی گئی ہے کہ جب وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل طے کر کے چالیس برس کی عمر میں ذہنی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو : { قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ } ”وہ کہتا ہے : اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ میں شکر کرسکوں تیرے انعامات کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائے۔“ { وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ } ”اور یہ کہ میں ایسے اعمال کروں جنہیں تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں بھی اصلاح فرما دے۔“ اس دعا کا اسلوب خصوصی طور پر لائق توجہ ہے۔ دعا صرف یہ نہیں کہ میری اولاد کی اصلاح فرما دے اور انہیں نیک بنا دے ‘ بلکہ الفاظ کے مفہوم کی اصل روح یہ ہے کہ میری نسل میں میرے لیے اصلاح فرما دے ‘ ان میں میرے لیے بہتری پیدا فرما دے۔ اس لیے کہ بچے اگر صالح اور نیک ہوں گے تو اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔ اگر والدین نے اولاد کی اچھی تربیت کی ہوگی تو ان کے نیک اعمال میں سے والدین کو بھی صدقہ جاریہ کے طور پر حصہ ملتا رہے گا۔ یوں اولاد کی بہتری اور اصلاح گویا والدین کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔ بالکل یہی مفہوم اس دعا کا بھی ہے : { وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ الفرقان ”اور وہ لوگ کہ جو کہتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ‘ اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔“ { اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } ”میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور یقینا میں تیرے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔