3

آیت 11 { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ } ”اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی ‘ ان لوگوں کے بارے میں جو ایمان لائے کہ اگر یہ قرآن کوئی خیر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔“ یہ سردارانِ قریش کے موقف کا حوالہ ہے کہ ہم بڑے ہیں ‘ دانشور ہیں اور ہر اعتبار سے معاشرے کے سرکردہ لوگ ہیں۔ جب ہم اس دین کی طرف مائل نہیں ہوئے اور ہمیں اس قرآن میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بھلائی کی کوئی بات ہے ہی نہیں ‘ ورنہ یہ غریب غرباء اور گھٹیا لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ مکہ میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں اگرچہ حضرت عثمان بن عفان ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رض جیسے لوگ بھی تھے ‘ جن کا تعلق اونچے گھرانوں سے تھا ‘ مگر ابتدا میں زیادہ تر نادار اور مزدور لوگ ہی حضور ﷺ پر ایمان لائے تھے ‘ جن میں کوئی غلام بھی تھے ‘ اور شروع شروع میں یہی لوگ زیادہ تر آپ ﷺ کے اردگرد موجود ہوتے تھے۔ چناچہ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں کو اعتراض تھا کہ آپ علیہ السلام کے پیروکار نچلے طبقے کے لوگ ہیں ہود : 22 اسی طرح مکہ کے سرداروں کو بھی نادار اور غلام اہل ایمان کی موجود گی میں حضور ﷺ کی محفل میں بیٹھنا گوارا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مزدوروں ‘ غلاموں اور کمتر حیثیت کے لوگوں کے درمیان آکر بیٹھنا ہمارے شایانِ شان نہیں۔ ہاں ان لوگوں کو اگر آپ ﷺ اپنی محفل سے اٹھا دیں تو پھر ہم آپ ﷺ کے پاس آکر آپ ﷺ کی بات سننے پر غور کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ان مومنین ِصادقین کے بارے میں حضور ﷺ سے فرمایا : { وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ } ”اور مت دھتکارئیے آپ ﷺ ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح وشام اور اس کی رضا کے طالب ہیں۔ آپ ﷺ کے ذمے ان کے حساب میں سے کچھ نہیں ہے اور نہ آپ ﷺ کے حساب میں سے ان کے ذمے کچھ ہے ‘ تو اگر بالفرض آپ ﷺ انہیں دور کریں گے تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔“ { وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ہٰذَآ اِفْکٌ قَدِیْمٌ} ”اور چونکہ انہوں نے اس قرآن کے ذریعے سے ہدایت نہیں پائی تو اب کہیں گے کہ یہ تو گھڑی ہوئی پرانی چیز ہے۔“