You are reading a tafsir for the group of verses 43:66 to 43:75
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

جب ظالموں اور مشرکوں کے لئے ہلاکت کی خوشخبری دے دی گئی تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ظالم احزاب کو اور حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ان احزاب کے غلط نظریات کی اساس پر مباحثہ اور مناظرہ کرنے والے ظالمین کو قیامت کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے اور اس منظر میں ایک جھلک مومنین متقین کو بھی دکھائی جاتی ہے جو جنت کے گلستانوں میں نہایت ہی عزت سے ہوں گے۔

آیت نمبر 66 تا 77

یہ منظریوں شروع ہوتا ہے کہ قیامت اچانک برپا ہوجاتی ہے۔ جب وہ اس سے غافل اور لاپرواہ تھے۔ ان کو توقع نہ تھی کہ اچانک قیامت آجائے گی۔

ھل ینظرون ۔۔۔۔۔۔ لا یشعرون (43 : 66) ” کیا یہ لوگ بس اسی چیز کے منتظر ہیں کہ اچانک ان پر قیامت آجانے اور انہیں خبر بھی نہ ہو “۔

اور جب یہ آجاتی ہے تو دنیا کے تمام حالات کو بدل کر رکھ دیتی ہے ، دنیا کی تمام باتیں بدل جائیں گی اور یہ بہت بڑا حادثہ ہوگا۔

الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدوالا المتقین (43 : 68) ” متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے “۔ ان کی دوستی کے سر چشمے ہی سے ان کی دشمنی پھوٹے گی۔ اس دنیا میں وہ شریر مجتمع تھے اور وہ گمراہی میں ایک دوسرے کے مشیر تھے۔ آج وہ ایک دوسرے پر ملامت کرنے والے ہوں گے اور اس شر اور گمراہی کی ذمہ داری وہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہوں گے۔ کبھی تو وہ باران ہمدم تھے اور آج وہ ایک دوسرے سے الجھنے والے مخالف۔ الا المتقین (43 : 68) ” ماسوائے متقین کے “۔ ان کی دوستی باقی ہوگی ، کیونکہ وہ دوستی ہدایت پر تھی ، باہم خیر خواہی پر تھی ، اور انجام کار ان کو نجات ملی۔

جہاں دوست باہم جھگڑیں گے اور الجھیں گے پوری کائنات سے آواز ہوگی اور یہ اللہ کریم کی جانب سے ہوگی اور متقین کے لئے ہوگی :

یعباد لاخوف۔۔۔۔۔ تحزنون (43 : 68) الذین امنوا ۔۔۔۔۔ مسلمین (43 : 69) ادخلوا الجنۃ ۔۔۔۔۔ تحبرون (43 : 70) ” اس روز ان لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے ، کہا جائے گا کہ ” اے میرے بندو ، آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔ داخل ہوجاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں ، تمہیں خوش کردیا جائے گا “۔ یعنی تم اس قدر خوش ہو گے کہ سرور اور خوشی تمہارے پہلوؤں اور چہروں کو ڈھانپ لے گی یوں نظر آئے گا کہ تم پر ایک خوبصورت چادر بچھی ہوئی ہے۔

اب ہمارا تخیل کچھ اور عجیب چیز دیکھتا ہے۔ سونے اور چاندی کے تھال اور پیالے ان پر پھرائے جا رہے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جنت میں ان کے لئے وہ کچھ ہے جنہیں ان کا نفس چاہتا ہے اور نفوس جو کچھ چاہتے ہیں ان کے علاوہ آنکھیں جو کچھ چاہتی ہیں ، وہ بھی ہے اور یہ سب ضیافتیں ان کی کمال درجے کی عزت اور تکریم کے لئے ہوں گی۔

یطاف علیھم ۔۔۔۔ وتلذ الاعین (43 : 71) ” ان کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہوگی “۔

اور ان نعمتوں کے علاوہ ، وہ چیز ہوگی جو ان سے بھی بڑی اور افضل ہے۔ یہ کہ اللہ خود مخاطب ہو کر ان کی عزت افزائی کرے گا اور یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہوگا۔

وانتم فیھا خلدون (43 : 71) وتلک الجنۃ ۔۔۔۔۔۔ تعملون (43 : 72) لکم فیھا فاکھۃ کثیرۃ منھا تاکلون (43 : 73) ” تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے ، تم اس جنت کے وارث اپنے ان اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو ، جو تم دنیا میں کرتے رہے۔ تمہارے لیے یہاں بکثرت فواکہ موجود ہیں جنہیں تم کھاؤ گے “۔

اور ان مجرمین یاران دنیا کا کیا حال ہے جنہیں ہم ابھی لڑتے جھگڑتے چھوڑ آئے ہیں :

ان المجرمین فی عذاب جھنم خلدون (43 : 74) ” رہے مجرمین تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے “۔ جہنم کا عذاب ایک دائمی عذاب ہے اور یہ نہایت ہی شدید اور اعصاب شکن عذاب ہوتا ہے ، مسلسل ہوتا ہے اور ایک منٹ کے لئے بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ اور اس میں ان کے لئے امید کی کوئی چنگاری نہ ہوگی اور نہ دور دور رہائی کا کوئی نشان ہوگا۔ اور یہ بدبخت اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

لا یفتر عنھم وھم فیہ مبلسون (43 : 75) ” کبھی ان کے عذاب میں کمی نہ ہوگی اور وہ اس میں مایوس پڑے ہوں گے “۔ یہ کام انہوں نے خود اپنے خلاف کیا اور اپنے خلاف کیا اور اپنے آپ کو اس ہلاکت خیز گھاٹ پر اتارا۔ یہ خود ظالم ہیں اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ، مظلوم نہیں ہیں۔

وما ظلمنھم ولکن کانوا ھم الظلمین (43 : 76) ” ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے “۔ اب اس منظر میں دور سے ایک چیخ اٹھتی ہے۔ ایک ایسی دردناک پکار جس میں مایوسی ، تنگ دلی اور کربنا کی کی تمام علامات موجود ہیں۔

ونادوا یملک لیقض علینا ربک (43 : 77) ” اور پکاریں گے اے مالک ، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے “۔ یہ چیخ نہایت دور سے جہنم کی تہوں سے اٹھتی ہے۔ جس کے دروازے بھی اب بند ہوچکے ہیں۔ یہ انہی مجرمین اور ظالمین کی آواز ہے۔ اب ان کی یہ پکار نجات کے لئے نہیں ، نہ کسی امداد کے لئے ہے ، یہ تو اب جہنم میں مایوس پڑے ہوئے ہیں ، اب ان تجویز یہ ہے کہ اللہ ہمیں نیست و نابود کردے ، فوراً ختم کر دے تا کہ ہم آرام کرلیں۔ اور بہت سی آرزوئیں آرزوئیں ہی رہتی ہیں۔ لیکن اس پکار میں غضب کی تنگی اور بےتابی اور کربنا کی ہے۔ اس فریاد و فغان کے پیچھے ہمیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن کی حالت عذاب نے خراب کردی ہے۔ ہوش ٹھکانے نہیں رہے ، درد کی حد ہوگئی اور یہ ان کی طاقت برداشت سے باہر ہوگیا ہے۔ اس لیے آخر میں مجبور ہو کر یہ چیخ بےساختہ نکل گئی۔

یملک لیقض علینا ربک (43 : 77) ” اے مالک ، تیرا رب ہمارا کام تمام ہی کر دے تو اچھا ہے “۔

لیکن اس پکار کا جواب نہایت ہی مایوس کن اور توہین آمیز ہے اور بغیر کسی لحاظ کے اور بغیر اس کے کہ ان کی کربناک پکار کو کوئی اہمیت دی گئی ہو۔

قال انکم مکثون (43 : 77) ” وہ جواب دے گا ، تم یونہی پڑے رہو گے “۔ اب رہائی کی کوئی امید نہیں ہے۔ نہ موت ہے اور نہ تم نیست و نابود کئے جاؤ گے۔ تم نے اب یہاں ہی ٹھہرنا ہے۔

اب سچائی کو ناپسند کرنے والوں اور منہ موڑنے والوں اور اس انجام تک پہنچنے والوں کو اس کربناک منظر کے متصلا بعد خطاب کیا جاتا ہے اور نہایت ہی سنجیدہ اور تعجب خیز انداز میں کہا جاتا ہے اور اس حیرت انگیز فضا میں ان کو ڈرایا جاتا ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%