You are reading a tafsir for the group of verses 42:36 to 42:43
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت نمبر 36 تا 43

اس سورت میں اس سے قبل قرآن مجید نے انسانیت کی حالت کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اہل کتاب نے علم آجانے کے باوجود باہم اختلافات کئے اور یہ اختلافات غلط فہمی اور جہالت پر مبنی نہ تھے۔ حالانکہ ان کے پاس کتاب الٰہی صاف صاف آگئی تھی۔ بلکہ انہوں نے باہم یہ تفرقہ حسد اور دشمنی کی وجہ سے کیا۔ اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ عہد نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) سے لوگوں کے لئے وہ آسمانی دین اور ایک منہاج اور نظام زندگی مقرر کردیا گیا تھا۔ اور یہ وصیت بھی کی گئی تھی کہ اسے قائم کرو۔ اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ جن لوگوں نے حسد اور دشمنی کی وجہ سے منہاج الٰہی میں اختلاف کیا ان کے بعدجب کوئی کتاب ان کی اگلی نسلوں کو ملی تو ان اختلافات کی وجہ سے وہ سرے سے کتابوں کے بارے میں شک میں پڑگئے۔ جب اہل کتاب اور اہل دین سماوی کا یہ حال ہوگیا تھا تو جن اقوام کے پاس کوئی کتاب یا کوئی دین ہی نہ تھا ، ظاہر ہے کہ ان کی حالت تو ان سے بھی بدتر ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ انسانیت کو ایک صالح قیادت کی ضرورت تھی تا کہ وہ انسانوں کو ان اندھی جاہلیتوں سے نکالے اور ان کی رہنمائی کر کے ان کو ایک مضبوط رسی میں باندھ دے۔ اور ان کی رہنمائی ایک ایسے راستے کی طرف کرے جو اللہ تک پہنچاتا ہو جو اس وجود کا رب ہے۔

اس لیے اللہ نے یہ آخری کتاب عربی زبان میں اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر اتاری تا کہ ام القریٰ ، مکہ مکرمہ اور اس کے ماحول میں رہنے والوں سے دعوت کا آغاز کرے اور ان کے اندر وہی دین قائم کرے جس کی سخت تاکید حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو کی گئی تھی تا کہ تمام ادیان حقہ کی کڑیاں باہم مل جائیں اور آغاز تاریخ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک ایک ہی نہج ، ایک منہاج ، ایک ہی دین اور ایک ہی شریعت ہو اور ایک ایسی جماعت یہاں قائم کی جائے جو اس تاریخی دعوت کی محافظ ہو ، اس کی قیادت کرے اور اس کرۂ ارض پر اس دعوت کو اللہ کی منشا کے مطابق برپا کر کے یہاں اس منہاج کو قائم کرے۔ اور یہ کام اس شکل و صورت میں ہو جو اللہ کو پسند ہو۔ لہٰذا زیر بحث آیات میں اس جماعت کے خدوخال بیان ہو رہے ہیں۔ جس نے یہ عظیم فریضہ سر انجام دینا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ آیات مکی ہیں اور مدینہ میں اسلامی نظام حکومت کے قیام سے پہلے نازل ہوئی ہیں۔ لیکن ہم مکہ میں بھی تحریک اسلامی کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دیکھتے ہیں۔

وامرھم شوری بینھم (42 : 38) “ اور اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشاورت کا قیام اسلامی سوسائٹی اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ اسلامی جماعت کی بنیادی خصوصیت ہے۔ جماعتی نظام شوریٰ پر قائم ہوتا ہے۔ یہی نظام جماعت سے آگے بڑھ کر پھر مملکت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یعنی اسلامی معاشرے کی جان شورائیت ہے اور یہ اس کے اندر پھیلتی جاتی ہے۔ اس طرح اس جماعت کی دوسری خصوصیت یہ بتائی گئی ہے۔

والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون (42 : 39) “ جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں ”۔ باوجود اس کے کہ مکہ میں حکم یہی تھا کہ صبر کرو ، اور زیادتی کا بدلہ زیادتی سے نہ دو ، اور یہ حکم اس وقت تک کے لئے تھا جب ہجرت کے بعد قتال کی اجازت دے دی گئی اور یہ کہا گیا ۔

اذن للذین ۔۔۔۔۔ نصرھم لقدیر (22 : 39) “ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ”۔ تو اس صفت کا ان مکی آیات میں ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ تحریک اسلامی کا مزاج یہی ہے کہ وہ زیادتی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہے اور اس سے پہلے اور بعد کے جو احکام ہیں وہ صبر کرنے اور رکے رہنے کے لئے ہیں۔ اور استثنائی احکام ہیں اور ایک متبعین وقت تک کے لئے ہیں۔ یہاں اس مکی سورت میں چونکہ جماعت مسلمہ کی بنیادی صفات قلم بند کی جا رہی تھیں اس لیے یہاں ذکر کردیا کہ اگرچہ فی الوقت انتصار کی ممانعت تھی لیکن یہ صفت اہل ایمان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔

بہرحال جماعت مسلمہ کی صفات کے ضمن میں ایسے امور کا ذکر جن پر عمل نہ ہو رہا تھا اور نہ جماعت کے ہاتھ میں کسی ملک کی عملی قیادت تھی اور جماعت ابھی مکہ میں مصائب برداشت کر رہی تھی ، یہ اس لیے ہوا کہ اس جماعت نے پوری انسانیت کی قیادت کرنی تھی اور اسے اس لیے برپا کیا گیا تھا کہ وہ پوری انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نور اسلام میں لائے گی۔ لہٰذا جماعت مسلمہ کے اندر ان صفات کا پیدا ہونا اور جماعت کے لئے ان مقاصد کے لئے تیار کرنا ضروری تھا۔ یہاں ان باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے تا کہ جب اس کے ہاتھ میں اقتدار آئے تو وہ اس کی اہل ہو۔ لہٰذا ان صفات پر گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہیں ؟ ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور انسانی معاشرے میں ان کی اہمیت کیا ہے۔

یہ ہیں ایک اسلامی جماعت کی صفات۔ ایمان ، توکل ، اجتناب کبائر اور فواحش ، غصے کے وقت معافی ، اللہ کی پکار پر لبیک کہنا ، اقامت صلوٰۃ ، ہر معاملے میں مشاورت ، انفاق فی سبیل اللہ ، ظلم و زیادتی کا مقابلہ ، عفو ، اصلاح اور صبر۔ یہ کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے۔ مناسب ہے کہ ان صفات کو قرآنی ترتیب کے مطابق بیان کریں۔

قرآن کریم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طے کردہ ، مستحکم اور دائمی میزان کے سامنے کھڑا کردیتا ہے تا کہ وہ دائمی اور مستقل قدروں اور عارضی اور بدلنے والے حالات کے درمیان فرق و امتیاز کرسکیں۔ اور ان کی سوچ میں فرق نہ ہو ورنہ ان کی نگاہ میں ہر چیز کی حقیقی قدرو قیمت صحیح نہ رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات کے بیان سے پہلے ایک مستقبل میزان اور پیمانہ بیان کردیا کہ ایک مسلم جماعت کی صفات کے لئے یہ پیمانہ ہے۔

فما اوتیتم من ۔۔۔۔۔ خیر وابقیٰ (42 : 36) “ جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی اور پائیدار بھی ”۔ اس زمین کا سازو سامان بہت ہی پرکشش اور زرق وبرق ہے۔ کھانے پینے کے سامان ، اولاد ، شہوات ، لذائذ ، مرتبہ اور اقتدار وغیرہ اور بعض نعمتیں وہ ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو زمین میں بطور مہربانی دی ہیں اور یہ اللہ کی جانب سے خالص بخشش ہیں۔ ان کو اللہ نے اس دنیا میں معصیت اور طاعت پر موقوف نہیں کیا ہے۔ اگرچہ اطاعت شعار کی اس قلیل بخشش میں برکت ہوتی ہے اور بدکار کے ہاتھ میں اگر بہت کچھ ہو تب بھی اس سے برکت چھن جاتی ہے۔

لیکن یہ سب امور باقی اقدار نہیں ہیں۔ یہ متاع اور اس زندگی کا سروسامان ہے۔ یہ سرو سامان محدود وقت کے لئے ہے۔ یہ نہ کسی کا مرتبہ بلند کرتا ہے ، نہ گراتا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک نہ شرافت و عزت کی دلیل ہے اور نہ کراہت اور ناپسندیدگی کی دلیل ہے۔ نہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص سے اللہ راضی ہے اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اللہ ناراض ہے۔ بس یہ اس زندگی ، فانی زندگی کا سامان ہے اور اس کے مقابلے میں۔

وما عند اللہ خیر وابقی (42 : 36) “ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی ”۔ بہتر ہے اپنی قیمت کے اعتبار سے اور پائیداریوں کہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ لہٰذا اس فانی دنیا کا سازو سامان بمقابلہ آخرت کچھ بھی نہیں ہے۔ بہت ہی محدود اور کم قیمت ہے اور چند روزہ ہے۔ ایک فرد کے لئے صرف اسی کی زندگی میں کار آمد ہے اور پھر ہر شخص سوچ لے کہ وہ کتنی عمر لے کر آیا ہے اور کتنی رہ گئی ہے۔ اور بمقابلہ ایام اللہ یہ تو بہت کم بلکہ لمحات ہیں جس طرح چشم زدن۔

اس تمہیدی بیان اور اصل معیار نیک و بد کے بیان کے بعد اب اللہ ان مومنین کی صفات بیان فرماتا ہے جن کے لئے اللہ نے بہتر اور پائیدار انجام اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے۔

وما عند اللہ خیر وابقی للذین امنوا (42 : 36) “ اور اللہ کے ہاں جو ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں ”۔ ایمان وہ حقیقت ہے کہ جب یہ ذہن میں بیٹھ جائے تب ہی جا کر اس کے ذریعہ انسانوں کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اس کائنات کی ہر چیز کی اصل “ قدر ” معلوم کرسکیں۔ صرف ایمان کے ذریعہ ہم اس کائنات کی حقیقت کا ادراک کرسکتے ہیں کہ اس کائنات کو الٰہ العالمین نے بتایا ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے بعد ہی کوئی شخص اس کائنات کے ساتھ کوئی معاملہ کرسکتا ہے۔ اس طرح انسان اس کی حقیقت کو معلوم کرلیتا ہے۔ اس کے اندر پائے جانے والے قوانی قدرت کا حقیقی ادراک کرسکتا ہے اور اس طرح یہ انسان اپنی حرکت کو اس کائنات کی حرکت کے ساتھ ہم آہنگ کرسکتا ہے۔ پھر انسان اس کائنات کے کلی قوانین قدرت سے انحراف نہ کرے گا کیونکہ اس طرح یہ ہم آہنگی ختم ہوجائے گی اور یہ ہم آہنگی اس قدر اہم ہے کہ اس کے ساتھ انسان اس دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرسکے گا۔ اور اس عظیم وجود کے ساتھ مل کر اپنے باری تعالیٰ اور خالق کی اطاعت اور تابعداری میں زندگی بسر کرسکے گا۔ یہ صفت ہر انسان کے لئے لازمی صفت ہے کہ وہ مومن ہو ، لیکن جس جماعت نے پوری انسانیت کے اس سفر کی قیادت کرنی ہے اور جس نے پوری انسانیت کو خالق کائنات تک پہنچا نا ہے اس کے اندر اس صفت کا بدرجہ اتم موجود ہونا ضروری ہے۔

اس ایمان کے نتائج کیا نکلتے ہیں ؟ مومن کو نفسیاتی اطمینان اور نصب العین کا تعین حاصل ہوجاتا ہے۔ تردد ، حیرت ، خوف اور مایوسی اس کے قریب نہیں لگتی اور اس کرۂ ارض پر عام زندگی گزارنے کے لئے بھی یہ صفات اشد ضروری ہیں۔ لیکن یہ صفات اس جماعت کے لئے تو لابدی ہیں جس نے اس کٹھن راہ میں دوسرے انسانوں کی رہنمائی کرنی ہے۔

ایمان کو اہم قدروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مومن خواہشات نفسانیہ ، ذاتی اغراض ، ذاتی مصلحتوں ، مفادات کے حصول سے پاک ہو۔ تب جا کر وہ کسی اونچے مقاصد کے لئے کام کرسکے گا۔ اور یہ سوچے گا کہ اس کام میں اس کی ذات کی کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ یہ تو صرف دعوت الی اللہ کی ڈیوٹی ہے۔ یہ عند اللہ اجر پا چکا ہے۔ اللہ کے ساتھ سودا ہوچکا ہے اور یہ شعور اس شخص کے لئے تو بہت ہی لازمی ہے جو قائد تحریک ہو ، تا کہ وہ اس وقت مایوس نہ ہو جب ایک خود سر گروہ اس سے الگ ہوجائے یا اسے دعوت کی وجہ سے ایذا دی گئی ہو ، اور اگر تمام عوام اس کے گرویہ ہوجائیں اس کے مطیع ہوجائیں تو وہ مغرور نہ ہوجائے کیونکہ وہ تو ایک مزدور ہے ، اس نے اجرت اللہ سے پہلے ہی لے لی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا پہلا گروہ ، جماعت صحابہ کے اندر اس قسم کا ایمان پیدا ہوگیا تھا۔ ان کے ایمان نے ان کے نفوس ، ان کے اخلاق ، ان کے طرز عمل میں ایک عجیب انقلاب پید کردیا تھا۔ ان کے دور میں پوری انسانیت کے اندر ایمان کی شکل ہی بگڑ گئی تھی۔ ایمان دب گیا تھا ، بلکہ ایمان کا لوگوں کے اخلاق ، ان کے طرزعمل اور ان کی نفسیات پر کوئی اثر ہی نہ رہا تھا۔ جب اسلام آیا تو اس نے ایمان کی ایک زندہ ، موثر ، فعال صورت دی۔ اور اس نے صحابہ کرام ؓ کی ایک ایسی جماعت پیدا کردی جنہوں نے اسلامی انقلاب کا بیڑا اٹھایا۔

٭٭٭

سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب “ مسلمانوں کے زوال کے عالمی اثرات ” میں فرماتے ہیں :

“ یہ ہے وہ ایمان جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور اس میں ایمان کو اس جماعت کی صفت اول بتایا گیا ہے جو پوری انسانیت کی قیادت کے لئے اٹھائی گئی ہے جو اپنے ایمان کی وجہ سے انسانیت کی قیادت کرتی ہے۔ اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مومن صرف اللہ پر توکل کرے ”۔ لیکن قرآن مجید تو کل علی اللہ کو بطور ایک مستقل عنوان ذکر کرتا ہے۔

وعلی ربھم یتوکلون (42 : 36) “ اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ”۔ یہاں سیدھے سارے فقرے یتوکلون علی ربھم کی بجائے وعلی ربھم یتوکلون (42 : 36) کہا۔ یعنی بعد کے الفاظ کو مقدم یعنی جار مجرور کو مقدم کرنے سے حصر کے معنی پیدا ہوئے یعنی صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور کسی پر نہیں کرتے۔ یہ بھی عقیدۂ توحید ہے اور عقیدۂ توحید کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اللہ پر بھروسہ ہو۔ مومن کا اللہ کی ذات اور صفات پر ایمان ہوتا ہے۔ اس کا یقین ہوتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی شخص اپنی مشیت سے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ کوئی کام یہاں اللہ کے اذن کے بغیر واقع ہی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا مومن صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ کسی کام کے کرنے یا کسی کام کے نہ کرنے میں مومن صرف اللہ پر توکل کرتا ہے۔

ہر شخص کے لئے یہ شعور اس کی عملی زندگی میں لابدی ہے ۔ کیونکہ اس طرح وہ ہر کسی کے سامنے سر اٹھا کے چلے گا۔ اور اس کا سر کسی کے سامنے نہ جھکے گا۔ وہ بہت مطمئن ہوگا ، نہ کسی سے کوئی امید رکھے گا نہ اسے کسی کا خوف ہوگا اگر مشکلات آجائیں تو پرجوش اور ثابت قدم ہوگا اور اچھے دن ہوں تو سنجیدہ رہے گا۔ نہ خوشحالی اور نہ ہی بدحالی اسے اپنی جگہ سے ہلا سکے گی۔ لیکن یہ شعور اسلامی انقلاب کے قائد کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ اس راہ کے نشیب و فراز میں جم جانے اور اسلامی انقلاب لانے والی جماعت کے ہر فرد میں بھی یہ صفت ضروری ہے۔

والذین یجتنبون کبئر الاثم والفواحش (42 : 37) “ جو بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ” ۔ قلب کی طہارت ، طرز عمل کا شفاف ہونا ، خصوصاً بڑے گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے ، اسلامی معاشرے کی اساسی خصوصیت ہے اور یہ ایمان کے نمایاں آثار میں سے ہے۔ اور کسی صحیح قائد اور خصوصاً اسلامی دعوت کے لئے اٹھنے والی جماعت کے لئے تو یہ بہت ہی ضروری صفت ہے۔ کوئی دل اور شفاف نہیں رہ سکتا ، اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہو اور فحاشی کے کاموں میں حصہ دار ہو اور ان چیزوں سے اجتناب کرنے والا نہ ہو ، اور کوئی فرد اور کوئی جماعت قیادت کے قابل نہیں ، اگر اس کا دل صاف نہ ہو ، اور معصیت اور فحاشی نے اس کے ایمان کو خود ختم کردیا ہو اور اس کی شکل ہی بگڑی ہوئی ہو۔

پہلی جماعت مسلمہ کے دل میں ایمان اس قدر تیز احساس کے ساتھ ، اس درجے تک بلند ہوگیا تھا ، جس کی طرف محولہ بالا ص میں 22 میں اشارہ کیا گیا اور اس طرح اس جماعت کو اس کے ایمان نے انسانی قیادت کے منصب پر فائز کردیا تھا۔ اور انہوں نے ایسی قیادت کی کہ اس کی مثال نہ سابقہ قدیم تاریخ میں ملتی ہے اور نہ نئی تاریخ میں۔ اس قیادت کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک تیز ہو اور جو ستارے کی طرف اشارہ کرتا ہو ، اس جہان میں جہاں خواہشات کی جنگ برپا ہو اور نفسا نفسی کا عالم ہو۔

اللہ اس انسانی مخلوق کی کمزوریوں سے خوب واقف ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قیادت کے لئے شرائط بھی معقول حد کے اندر رکھی ہیں۔ جن پر کوئی قیادت عمل کرسکے اور اس پر وہ اللہ کے ہاں موہود اجر پاسکے۔ اللہ نے جو معیار تجویز فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی جماعت اور اس کی لیڈر شپ کبائر گناہوں اور فواحش سے مجتنب ہو۔ رہے چھوڑے گناہوں کا ارتکاب تو وہ اللہ معاف کر دے گا۔ کیونکہ اللہ انسانوں کی طاعت کی حدود وقیود سے خوب واقف ہے۔ یہ اللہ کا فضل ، اس کی مہربانی اور رحمت ہے ، جو اس نے اس انسان پر کیا۔ مناسب ہے کہ ہم اللہ سے شرم کریں کیونکہ مہربانی سے انسان کے اندر حیا کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور عفو درگزر کی وجہ سے عزت و احترام پیدا ہوتا ہے۔

واذا ما غضبوا ھم یغفرون (42 : 37) “ اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کر جاتے ہیں ” ۔ یہ صفت اس کے بعد متصلا آئی جب اس سے قبل اشارہ کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے چھوٹے گناہ معاف کر کے درگزر فرماتا ہے۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ آپس میں مہربانی اور درگزر کا سلوک روا رکھیں۔ چناچہ مومنین کی صفات میں اس بات کو شامل کیا گیا کہ جب ان کو غصہ آئے تو وہ ایک دوسرے کو معاف کریں۔

اس معاملے میں بھی اسلام نفس انسانی کے ساتھ نہایت ہی احسان کرتا ہے۔ اسلام انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اللہ کو تو معلوم تھا کہ غصہ ایک ایسا انسانی رد عمل ہے جو انسان کی فطرت سے اٹھتا ہے۔ اور یہ غصہ سرا سر شر بھی نہیں ہے۔ اللہ کے لئے ، اللہ کے دین کی خاطر ، سچائی کے لئے اور انصاف کی خاطر تو غصہ مطلوب ہے۔ اور اس میں خیر ہے۔ لہٰذا اسلام نفس غصے کو جرم قرار نہیں دیتا۔ نہ اسے غلطی قرار دیتا ہے بلکہ اسلام انسانی مزاج اور فطرت میں غصے کو قبول کرتا ہے۔ اس لیے اسلام انسان اور اس کی فطرت کے درمیان کسی دینی حکم کی وجہ سے جدائی اور تفریق نہیں کرتا۔ ہاں اسلام یہ ہدایت ضرور دیتا ہے کہ انسان کو اپنے غصے پر قابو پانا چاہئے۔ اسے چاہئے کہ حتی الوسع عفو و درگزر سے کام لے اور یہ اس کی ایمانی صفات میں سے ایک مثالی صفت ہوگی۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ بات منقول ہے کہ آپ کبھی بھی ذاتی معاملات میں غصہ نہیں ہوئے۔ آپ کا غصہ اللہ کے لئے ہوتا تھا اور پھر آپ کے غصے کے سامنے کوئی طاقت ٹھہر نہ سکتی تھی۔ خیر یہ تو مقام محمدی ﷺ کے درجات و کمالات ہیں۔ عام مسلمانوں کو اللہ ان کی طاقت کے مطابق ہی حکم دیتا ہے ۔ اگرچہ وہ اس میں ان کو آزماتا ہے اور صرف یہ حکم دیتا ہے کہ اگر غصہ آجائے تو معاف کردیں ، اور اگر ممکن ہو سکے تو معاف کردیں اور انتقام کے جذبات پر قابو پالیں بشرطیکہ معاملہ ذاتی حدود کے اندر ہو۔ اور دو افراد کے درمیان ہو۔

والذین استجابوا لربھم (42 : 38) “ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ”۔ وہ اپنے اور رب کے درمیان حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں اور نفس انسانی سے وہ باتیں محو کرتے ہیں جو توجہ الی اللہ سے مانع ہوں ، یہ رکاوٹیں نفسانی خواہشات ، جذبات و میلانات اور وہ رکاوٹیں جو انسان کے وجود اور اس کی ذات سے لگی ہوئی ہیں ، جب انسان ذاتی خواہشات پر قابو پالے اور شخصی رکاوٹوں کو دور کرے تو پھر اس کے اور اس کے رب کے درمیان راستہ صاف ہوجاتا ہے ۔ اور پھر یہ رب کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے ہر وقت تیار ہوتا ہے اور اللہ کے حکم کے سامنے ذاتی خواہشات کی کوئی رکاوٹ ، رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی یہ عمومی صفت ہے لیکن احکام الٰہی میں سے بعض کا یہاں خصوصی ذکر بھی کیا جاتا ہے۔

واقاموا الصلوٰۃ (42 : 38) “ نماز قائم کرتے ہیں ”۔ اسلام میں نماز کو ایک بہت بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ کلمہ طیبہ کے اقرار کے بعد پہلا حکم نماز کا آتا ہے۔ گویا نماز اللہ کے احکام کی پیروی کا آغاز ہوتا ہے۔ بندے اور اس کے رب کے درمیان تعلق کا نام نماز ہے۔ پھر یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اسلام میں محمود وایاز ایک ہی صفت میں کھڑے ہوں گے۔ کسی کا سر دوسرے کے مقابلے میں بلند نہ ہوگا ، کوئی کسی سے آگے نہ ہوگا۔ اور یہی پہلو ہے یعنی مساوات کا پہلو کہ نماز کے بعد بالعموم زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے لیکن یہاں زکوٰۃ سے پہلے وامرھم شوری (42 : 38) کا ذکر کیا تا کہ معلوم ہو کہ رائے ہر شخص کی برابر شمار ہوگی۔

وامرھم شوریٰ بینھم (42 : 38) “ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ”۔ انداز بیان ایسا ہے کہ ان کے تمام امور مشورے کے نتیجے میں ہوتے ہیں گویا ان کی پوری زندگی مشورے کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا یہ ایک مکی آیت ہے اور یہ حکم اسلامی حکومت کے قیام سے بھی پہلے کا ہے۔ یہ رنگ گویا صرف حکومتی امور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک اسلامی سوسائٹی کا عمومی طرز عمل ہے۔ اگرچہ حکومت اس وقت قائم ہی نہ ہوئی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی تنظیم دراصل اسلامی سوسائٹی کے خدو خال کا ایک منظم ظہور ہی ہے اور اسلامی سوسائٹی میں اسلامی حکومت بھی آتی ہے۔ لہٰذا اسلامی سوسائٹی ، اسلامی حکومت کو بھی اسی نہج پر چلاتی ہے۔ جس طرح اس کے عمومی امور چلتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں آغاز ہی سے مشورے کا عمل جاری تھا۔ اور اس مشورے کا دائرہ حکومت اور حکومتی احکام سے بہت زیادہ وسیع تھا۔ یہ دراصل اسلامی سوسائٹی کی صفت ہے اور اس جماعت کی تو ممتاز صفات میں سے ہے جسے اللہ نے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے برپا کیا ہے۔ اور قیادت کے لئے تو یہ بہت ہی اہم ہے۔

شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہونی چاہئے تو اسلام نے اس کے لئے کوئی فولادی قالب نہیں تیار کیا۔ ہر زمان و مکان کے حالات میں اس کی مختلف شکل و صورت تیار ہو سکتی ہے تا کہ یہ صفت یعنی شو رائیت اسلامی سوسائٹی میں بھی رائج ہو۔ اسلامی اداروں میں بھی مروج ہو ، لیکن اس کی کوئی جامد شکل نہ ہو بلکہ شوریٰ کی روح ہر جگہ موجود ہو۔ یعنی یہ شورائیت دراصل الفاظ اور اشکال کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک صفت ہے جو ایمان کے نتیجے میں اسلامی سوسائٹی میں شورائی شعور اور طرز عمل پیدا کرتی ہے۔ بعض لوگ ایسے اسلامی اداروں کی بات کرتے ہیں جن کی تہہ میں ایمان نہ ہو یا ایمان کا ہونا ضروری نہ ہو تو وہ ایک فضول کام کر رہے ہیں۔ اور یہ کوئی سطحی بات نہیں ہے جس طرح پہلی نظر میں نظر آئے گی اور خصوصاً ان لوگوں کو نظر آئے گی جنہوں نے اسلامی نظریہ حیات میں ایمان کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ اسلامی نظریہ حیات اداروں اور تنظیمات میں منتقل ہونے سے قبل ، اس کے اندر ایسی عقلی اور نفسیاتی حقیقتیں ہوتی ہیں جو انسانی سوچ اور انسان کی ذات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور اس کے بعد اسلام کے اجتماعی اداروں میں وہ اصول بن کر ایک متبعین شکل اختیار کر کے سامنے آتی ہیں اور اس کے بعد پھر نصوص آتے ہیں اور وہ ان اشکال اور حالات کی طرف اشارہ کردیتے ہیں ۔ نصوص ان اصولوں کو منظم کردیتے ہیں ، ان کی تخلیق نہیں کرتے ، ان کی تخلیق تو ایمان کی وجہ سے ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلامی نظریہ حیات کی کسی شکل و صورت کے ظہور کے لئے کسی ملک میں اسلامی سوسائٹی اور مسلمانوں کا وجود ضروری ہے۔ اور ان مسلمانوں کا ایمان فعال اور بااثر ہو۔ اگر مسلمانوں کا وجود ہی نہ ہو تو محض اداروں کے قیام سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ محض ادارے ضروریات پوری نہ کرسکیں گے اور اس صورت میں کوئی ایسا نظام وجود میں نہ آسکے گا جسے اسلامی کہا جاسکے۔

جب مسلمان صحیح معنوں میں پائے جائیں گے اور ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے وجود میں آجائے گا تو اسلامی نظام بذات خود وجود میں آجائے گا اور اس کی ایک اداراتی شکل خودبخود وجود میں آجائے گی جو ان مسلمانوں کی ضرورت ہوگی اور ان کی سوسائٹی کی ضرورت ہوگی اور صرف اس طرح اسلامی اصولوں کے خواب کی سچی تعبیر وجود میں آسکے گی۔

ومما رزقنھم ینفقون (42 : 38) “ اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس سے خرچ کرتے ہیں ” یہ آیت بھی حکم فرضیت زکوٰۃ سے پہلے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ زکوٰۃ دو ہجری میں فرض ہوئی لیکن انفاق فی سبیل اللہ عام حکم اسلامی جماعت کے لئے پہلے سے تھا۔ بلکہ اسلامی سوسائٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ حکم وجود میں آگیا تھا۔

دعوت اسلامی کے عمل کے لئے مال کی ضرورت ہے اور یہ مال بذریعہ انفاق حاصل ہوگا۔ انفاق کے ذریعہ انسانوں کے دل کنجوسی کی بری خصلت سے پاک ہوتے ہیں جب انسانی جذبہ مال پر قابو پا لیتا ہے اور اپنی مملوکات کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھنا ہے ، ایمان کے مفہوم کے نکھار کے لئے یہ سب امور ضروری ہیں۔ اور یہ بات تو اپنی جگہ ہے کہ انفاق کے بغیر کوئی اجتماعی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دعوت تو ایک جدو جہد ہے اور جدو جہد میں کارکنوں کی کفالت ضروری ہے تا کہ اجماعی ضروریات پوری ہوں اور نتائج برآمد ہوں۔ بعض اوقات یہ تکافل ہمہ گیر ہوجاتا ہے کہ کیس کے لئے انفرادی دولت رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ جب مہاجرین مکہ سے نکلے اور مدینہ میں انصار کے ساتھ مل کر جو نظام قائم ہوا یہ سب اسی اصول کے تحت تھا لیکن جب حالات معمول پر آگئے تو پھر زکوٰۃ کو رائج کر کے موافات کے نظام کو منسوخ کردیا گیا جو کلی تکافل تھا۔ بہرحال انفاق فی سبیل اللہ اس جماعت کی ممتاز خصوصیت ہے جسے اس مقصد کے لئے چنا گیا ہو یا اسے اس مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہو کہ وہ کسی خطے میں اسلامی انقلاب برپا کرے۔

والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون (42 : 39) “ اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں ”۔ مکی سورتوں میں اس صفت کا ذکر اپنے اندر خاص معنی رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلامی جماعت مسلمہ کے اندر یہ طبیعی صفت ہوتی ہے کہ وہ زیادتی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا مقابلہ کرنا ایک اہم فریضہ ہے کیونکہ اگر کوئی ظالم کے سامنے ہتھیار ڈال دے تو ظالم اور جری ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ظالم کا مقابلہ کرنا بہت ضروی ہے۔ اور ایک ایسی ملت جسے اٹھایا ہی اس لیے گیا ہو کہ لوگوں کے حقوق کی پاسبانی کرے ، امر بالمعروف اس کا مشن ہو اور “ نہی عن المنکر اس کا فریضہ ہو ، اس کے لئے تو برائی کا مقابلہ کرنا بہت ہی اہم ہے کیونکہ امت مسلمہ اور جماعت مسلمہ کا نصب العین یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی پر چھا جانے اور اس کے اندر سچائی کے ساتھ عدل و انصاف قائم کرے۔

وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین “ اور عزت اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور مومنین کے لئے ہے ”۔ لہٰذا اسلامی جماعت کا مزاج ، اس کے فرائض کی نوعیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ زیادتی کا مقابلہ کرے اور اس پر جو دست درازیاں کی جا رہی ہیں ان کی مدافعت کرے۔ مکہ میں حکم یہ تھا کہ رک جاؤ اور ہاتھ روک لو اور صبر کرو۔ نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو ، وہاں یہ احکام مکہ کے مخصوص حالات کی وجہ سے تھے اور ابتدائے عرب مسلمانوں کی قدرے تربیت بھی مطلوب تھی کیونکہ عرب مزاجاً منتقم المزاج تھے ، یہ اسلامی جماعت اور اسلامی سوسائٹی کے لئے مستقل احکام نہ تھے۔ مکہ میں بعض خصوصی اسباب کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ ہر قیمت پر بقائے باہمی کے لئے امن اور سلامتی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔

1۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے خلاف سختی اور زیادتی کسی منظم حکومت ادارے کی طرف سے نہ تھی جو اس وقت کی جماعت پر حکمران ہو ، کیونکہ جزیرۃ العرب کی سیاسی صورت حال غیر منظم قبائل انداز کی تھی۔ وہاں مسلمانوں پر جو تشدد کیا جاتا ہے تھا ، اگر کوئی مسلمان کسی قبیلے کا فرد تھا تو اس پر یہ تشدد قبیلہ کرتا تھا اور قبیلے میں بھی اس کے قریبی رشتہ دار کے علاوہ کوئی جرات نہ کرسکتا تھا۔ مسلمانوں پر بحیثیت جماعت کوئی تشدد نہ ہوتا تھا۔ بعض اوقات آقا اپنے مسلمان غلاموں پر تشدد کرتے تھے اور مسلمان انہیں خرید کر آزاد کردیتے تھے۔ اس لیے کوئی بھی اپنے غلاموں پر زیادہ تشدد کی جرات نہ کرتا تھا ، رسول اللہ ﷺ نہ چاہتے تھے کہ مکہ میں گھر گھر کے اندر لڑائی شروع ہوجائے۔ ایک ہی گھر کے جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں وہ غیر مسلموں سے لڑنا شروع کردیں۔ پھر مکہ میں نرمی دوسرے لوگوں کے دلوں کو زیادہ نرم کردیتی تھی بسنبت سختی کے۔

پھر عرب معاشرہ ایک خوددار اور جوانمرد معاشرہ تھا۔ اس میں مظلوم کی تمایت میں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ مسلمان جب اذیت برداشت کرتے تھے اور اپنے عقیدے پر جم جاتے تھے تو عربوں کی جوانمردی کے جذبات ان کے حق میں اٹھتے تھے۔ شعب ابی طالب میں محصوری کے دوران بالعموم اسی جذبے نے مسلمانوں کی مدد کی ، جس میں بنی ہاشم سب محصور کر دئیے گئے تھے۔ اس محاصرے کے خلاف لوگوں کی ہمدردیاں ، مسلمانوں کے حق میں ہوگئیں اور لوگوں نے اس معاہدے کے پرزے پرزے کر دئیے جو صحیفے میں تھا اور یوں یہ ظالمانہ معاہدہ ختم ہوا۔

پھر عربوں کے اندر یہ رواج تھا کہ وہ بات بات پر تلوار سونت لیتے تھے۔ وہ بڑے جذباتی تھے اور کسی نظم و نسق کے پابند نہ تھے ۔ اسلامی جماعت میں جو تنظیم مطلوب تھی اس کا تقاضا تھا کہ اس جذباتیت کو ذرا دبایا جائے اور اسے کسی ہدف کا پابند کیا جائے۔ اور لوگوں کو اعصابی ضبط اور صبر کا عادی بنایا جائے۔ اور لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ نظریہ اور نصب العین ہر جذبے اور ہر مفاد پر مقدم ہیں۔ لہٰذا مکہ میں صبر اور مسلسل صبر کی تلقین کرنا اسلام کے منہاج تربیت کے لیے بہت ضروری تھا۔ اس طرح ایک مسلم کی شخصیت میں مطلویہ توازن پیدا ہوگیا اور وہ صبر وثبات کے ساتھ اپنے مقصد کے لئے آگے بڑھتے رہے۔۔۔۔ غرض یہ اور اس طرح کے دوسرے اسباب تھے جن کو اللہ اور رسول جانتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں ، صبر کی تلقین ہوتی رہی لیکن اصلی ہدف تحریک اسلامی کا یہی تھا۔

والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون (42 : 39) “ وہ لوگ جب ان پر زیادتی ہو تو وہ مقابلہ کرتے ہیں ”۔

اس اصول کو زندگی کا ایک دوسرا اصول عملاً رائج کرتا ہے ، وہ ہے :

وجذء سیئۃ سیئۃ مثلھا (42 : 40) “ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ”۔ سزا کا یہ اصول ہے کہ جیسا جرم ہو ، ویسی ہی سزا دی جائے تا کہ سرکشی اختیار نہ کرے۔ اگر کسی سرکش انسان کو کوئی روکنے والا نہ ہو تو وہ سر کشی اور ظلم میں بڑے اطمینان سے بہت آگے بڑھ جاتا ہے۔

یہ تو ہے مظلوم کا حق اور اصول عامہ۔ لیکن اگر کوئی اپنے اصلاح نفس یا جزائے خیر اور اخروی اجر کے لئے کسی کو معاف کرتا ہے یا جماعت مسلمہ کے خلاف اٹھنے والے جذبات کی وجہ سے معاف کرتا ہے تو اس قاعدے میں استثناء موجود ہے۔ لیکن معافی کو اس وقت معانی تصور کیا جائے گا جب کوئی شخص برائی کا جواب برائی کے ساتھ دینے پر قدرت رکھتا ہو۔ اس وقت عفو کا وزن بھی ہوگا اور دست درازی کرنے والے کی اصلاح بھی ہوگی کیونکہ دست درازی کرنے والا جب یہ سوچے گا کہ عفو اور در گزر محض احسان کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس میں معاف کرنے والے کی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ تو اس صورت میں وہ شرمندگی محسوس کرے گا ، نادم ہوگا اور آئندہ حیا کرے گا۔ اور یہ سوچے گا کہ میرے مخالف نے میرے ساتھ شریفانہ سلوک کیا ہے۔ وہ اونچا آدمی ہے اور جو شخص انتقام لینے پر قادر ہو اور معاف کر دے تو اس کا دل بھی صاف ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ایسے حالات میں عفو و درگزر دونوں کے لئے مفید ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک شخص انتقام لینے سے عاجز ہو اور معاف کردے تو پھر صورت یہ ہوگی ، گداگر تواضع کند خوئے اوست۔ لہٰذا ایسے عفو کو عفو کہنا ہی نہیں چاہئے کیونکہ وہاں عفو نہیں ہے ، مجبوری ہے۔ اور یہ صورت حال ایک شر انگیز صورت حال ہے ۔ اس کے نتیجے میں ظلم کرنے والا اور جری ہوتا ہے۔ اور فساد اور پھیلتا ہے ، یہ آیت مفہوم ۔

فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ (42 : 40) “ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ پر ہے ”۔

انہ لا یحب الظلمین (42 : 40) “ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ”۔ یہ پہلے قاعدے کی تاکید ہے کہ “ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ”۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ یا تو معاف کر دو یا اگر بدلہ لینا ہے تو برابر بدلہ لو اس میں حدت نہ بڑھو۔۔۔۔ ایک دوسری تاکید اسی قاعدے گی :

ولمن انتصر بعد ۔۔۔۔۔ من سبیل (42 : 42) انما السبیل علی الذین ۔۔۔۔۔۔ عذاب الیم (42 : 42) “ اور جو لوگ ظلم کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی۔ ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ”۔ لہٰذا جو شخص ظلم کے بعد مدافعت کرتا ہے اور برائی کا بدلہ اس کے مساوی لینا ہے ، تعدی نہیں کرتا تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ وہ تو اپنا قانون حق استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف کسی کے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔ نہ کسی کے لئے جائز ہے کہ اس کی راہ روکے۔ راہ تو ان لوگوں کی روکنی چاہئے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ، اور زمین میں بغیر استحقاق کے زیادتیاں کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی ایسے ملک کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب اس میں ایک ظالم لوگوں پر ظلم کر رہا ہو اور اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ اس میں باغی ہو جو لوگوں پر مظالم ڈھا رہا ہو اور کوئی قوت ایسی نہ ہو جو اس کا ہاتھ روکے یا اس سے قصاص دلواسکے۔ اللہ تعالیٰ بہرحال اس قسم کے ظالموں کو عذاب الیم کی دھمکی دیتا ہے۔ لیکن یہ لوگوں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ ظالم کا ہاتھ پکڑیں۔

آخر میں پھر انفرادی حالات اور طاقت انتقام کے باوجود ، تو ازن ، اعتدال ، ضبط نفس ، صبر اور احسان کا رویہ اپنانے پر متوجہ کیا جاتا ہے۔ جب صبر اور احسان فی الواقعہ ایک درگزر ہو ، ذلت نہ ہو ، کوئی احسان ہو ، مجبور نہ کردیا گیا ہو۔

ولمن صبر وغفر ان ذلک لمن عزم الامور (42 : 43) “ البتہ جو صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اولو العزمی کے کاموں میں سے ہے ”۔

اس پیراگراف کی تمام ہدایات و احکام نہایت ہی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی ہیں۔ نفس انسانی کو ایک طرف کینہ اور غصے سے بچانے کی سعی کی گئی ہے ، اور دوسری جانب کمزوری ، ذلت اور ظلم و زیادتی سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور ہر حال میں اللہ کی رضا مندی کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ صبر بہرحال زاد راہ ہے۔

اور مومنین کی جو صفات یہاں دی گئی ہیں وہ اس انقلابی جماعت کی خصوصیات ہیں ، جس نے پوری انسانیت کی قیادت کرنی ہے ، اور جس کے پیش نظر انعام اخروی اور رضائے الٰہی ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائیں اور رب پر توکل کریں۔

یہ بیان کرنے کے بعد کہ صفات مومنین یہ ہیں اور ان کے لئے جو اخروی اجر ہے ، وہ بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اب بطور تقابل تصویر کا دوسرا رخ بعض ظالموں کا انجام بھی یہاں دے دیا جاتا ہے۔ اور ان کے لئے ذلت اور خسران کا اعلان کیا گیا ہے۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%