آیت 42 { اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ } ”اصل میں الزام تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں“ { وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ } ”اور زمین کے اندر سرکشی کرتے ہیں بغیر کسی حق کے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ عدل و انصاف کی راہ میں اصل رکاوٹ تو وہ لوگ ہیں جو زمین میں سرکشی دکھاتے ہیں ‘ جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے خود حاکم بن بیٹھتے ہیں اور عوام الناس کے حقوق پر شب خون مارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کی اہمیت کا اندازہ ان تاکیدی احکام سے لگایا جاسکتا ہے جو پورے قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ سورة آل عمران کی آیت 18 میں اللہ تعالیٰ کی شان { قَآئِمًام بِالْقِسْطِط } کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کرنے والا ہے۔ سورة النساء کی آیت 135 میں فرمایا : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ } ”اے اہل ِایمان کھڑے ہو جائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر“۔ اور پھر سورة المائدۃ کی آیت 8 میں یہی الفاظ اس ترتیب میں دہرائے گئے : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِز } ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بن جائو“۔ پھر زیرمطالعہ سورت کی آیت 15 میں حضور ﷺ سے فرمایا گیا کہ آپ ﷺ انہیں بتا دیجیے : { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْط } کہ مجھے تمہارے درمیان عدل قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
0%