آیت نمبر 13 تا 17
ھوالذی یریکم اٰیٰته (40: 13) ” وہی تو ہے جو تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے “۔ اور اللہ کی نشانیاں تو اس کائنات کی ہر چیز میں نظر آتی ہیں۔ شمس وقمر کی گردش میں ، رات اور دن کے نظام میں۔ رعد وبرق اور بارو باراں میں ، ذرے ، خلیے ، پتے اور پتیوں میں عرض ہر چیز میں ایک معجزانہ نشانی ہے اور اس نشانی کی عظمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اس کی نقل کرنے کے لیے بیٹھے۔ یا اس جیسی کوئی چیز بنائے لیکن اے کاش کہ وہ اس قسم کی کسی چیز کی نقل کرسکتا یا اس جیسی ہی بناسکتا اور اللہ کی بنائی ہوئی ایک نہایت ہی چھوٹی چیز ہی بناسکتا۔
وینزل لکم من السمآء رزقا (40: 13) ” اور آسمانوں سے تمہارے لیے رزق نازل کرتا ہے “۔ لوگوں کو صرف بارش کے بارے میں علم ہے جس کی وجہ سے اس زمین پر زندگی قائم ہے ، اور یہ کھانے وپینے کے تمام اسباب فراہم کرتی ہے اور آسمانوں سے نازل ہونے والی دوسری اشیاء بھی بیشمار ہیں جن کے انکشافات روز ہوتے رہتے ہیں ، ان میں وہ شعاعیں ہیں جو زندگی بخشتی ہیں کہ اگر وہ نہ ہوں تو زمین کے اس ستارے پر زندگی نہ ہوتی اور یہ بھی انسان کے لیے ایک ذہنی اور روحانی غذا ہے جو آدم (علیہ السلام) سے نازل ہوتی چلی آرہی ہے اور جس کے ذریعے انسان سے بچنے سے آگے بڑھ کر بالغ ہوگیا ہے۔ اور اب نبوت محمدی ﷺ کی وجہ سے صراط مستقیم پر گامزن ہوگیا ہے۔ اور اس رزاق نے اسے منہاج حیات دیا ، اور اس کائنات کا مستقل قانون عطا کیا۔
وما یتذکر الامن ینیب (40: 13) ” سبق صرف وہی شخص لیتا ہے جو اللہ سے رجوع کرنے والا ہو “۔ جو شخص اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ اللہ کا فضل وکرم کس قدرعظیم ہے اور وہ اس کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو پاتا ہے جبکہ غافل اور سخت دل ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔۔۔۔ انابت کی وجہ سے اہل ایمان کے دل میں جو یاد الہٰی پیدا ہوتی ہے ، اور وہ ان نشانیوں پر غور وفکر کرتے ہیں ، اس کے حوالے سے مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ وحدہ کو پکاریں ، اسی کا طے کردہ نظام زندگی جاری کریں اور کافروں کی ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہ کریں۔
اگر مومنین اپنا دین اللہ کے لیے خالص کردیں اور صرف اسلامی نظام زندگی نافذ کردیں تو اس صورت میں کافران سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتے ۔ اسی طرح وہ اگر اللہ وحدہ کو پکاریں تو بھی کافر راضی نہیں ہوسکتے۔ مومنین کافروں کے ساتھ جس قدر نرمی بھی کریں ، جس قدر مصالحت بھی کریں اور ان کی رضا جوئی کے لیے جس قدر جتن بھی کریں وہ ان سے راضی نہیں ہوسکتے ۔ لہٰذا مومنین کو بےخطر اپنے راستے پر گامزن ہوجانا چاہئے ۔ رب واحد کو پکارنا چاہئے ، اس کے لیے عقیدہ خالص اختیار کرنا چاہئے۔ دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنا چاہئے ، چاہے کافر خوش ہوں یا خفا ہوں وہ تو کبھی راضی نہ ہوں گے۔
اب بتایا جاتا ہے کہ اس اللہ کی صفات کیا ہیں جس کی عبادت کی طرف اہل ایمان متوجہ ہوں گے اور اس پر کافر ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے۔ وہ صفات یہ ہیں :
رفیع الدرجٰت۔۔۔۔۔ من عبادہ (40: 15) ” وہ بلند دوجوں والا ہے ، مالک عرش ہے ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنے حکم سے روح نازل کردیتا ہے “۔ اللہ ہی رفعتوں والا اور عالی مقام ہے۔ اور وہ ایک ایسے عرش کا مالک ہے جو قابض ہے پوری کائنات پر اور بہت ہی بلند ہے اور یہ وہی ہے جو اپنے بندے پر روحانی تعلیمات نازل کردیتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے یہ زمین دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے۔ اس میں بسنے والے انسانوں کی روح اور دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے مراد وحی اور رسالت ہے۔ لیکن انداز تعبیر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وحی اور رسالت کی غرض وغایت کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وحی لوگوں کے لیے روح اور زندگی ہے۔ اور پھر بلندیوں سے چنے ہوئے بندوں پر آتی ہے۔ یہ سب صفات اور سائے اور رنگ اللہ کی اس صفت کے ساتھ متناسب ہیں جن میں کیا گیا ہے کہ وہ العلی الکبیر ہے۔ اب جن لوگوں کو چنا جاتا ہے اور ان پر روح نازل کی جاتی ہے۔ ان کا فریضہ منصبی کیا ہے ؟ صرف لوگوں کو متنبہ کرنا۔
لینذریوم التلاق (40: 15) ” تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کردے “۔ اس دن تمام لوگ باہم ملیں گے ، لوگ اپنے اعمال کے ساتھ دوچار ہوں گے۔ لوگ ملائکہ ، جنوں اور تمام مخلوقات سے ملیں گے اور تمام لوگوں کو بھی باری تعالیٰ سے ملنا ہوگا اور حساب دینا ہوگا۔ گویا یہ دن اپنے تمام مفاہیم کے ساتھ یوم التلاق ہے۔ پھر یہ ایسا دن ہوگا کو کھلا ڈھلا ہوگا ، کوئی پردہ ، کوئی ملع کاری اور کوئی دھوکہ بازی اس میں نہ چلے گی :
یوم ھم۔۔۔۔ شئ (40: 16) ” وہ دن جبکہ سب لوگ بےپردہ ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی “۔ اور اللہ سے تو کسی بھی وقت ، کسی بھی دن جبکہ سب لوگ بےپردہ ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی “۔ اور اللہ سے تو کسی بھی وقت ، کسی بھی دن اور کسی بھی حال میں کوئی شئ مخفی نہیں ہوتی ، لیکن دوسرے دنوں میں ، اس دنیا کے دنوں میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مخفی ہیں اور ان کے اعمال اور حرکات پوشیدہ ہیں ، آج لوگ خود بھی یہ سمجھیں گے کہ اب تو سب کھل گیا ہے ، ان کا سیاہ وسپید سامنے ہے۔ اور پردے غائب ہیں اور وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں۔
آج تو مکذبین اور متکبرین برخوردار ہوں گے ، سکڑے اور سمٹے ہوئے ہوں گے۔ تمام کائنات سہمی ہوئی ہوگی ، لوگ ڈرے ہوئے ہوں گے۔ بادشاہت صرف اللہ وحدوقہار کی ہوگی۔ اللہ تو ہر وقت وحدہ بادشاہ ہے لیکن پہلے لوگوں کو اللہ کی بادشاہت نظرنہ آتی تھی۔ آج ان کا دل دماغ تسلیم کرتا ہے کہ بادشاہت اللہ کی ہے۔ ہر متکبر اور ہر متکبر بھی جان جائے گا کہ بادشاہ صرف اللہ ہے ۔ ہر قسم کی شور وغوغا اس دن ختم ہوگی اور ایک عظیم القدر اور صاحب جلالت آواز آئے گی۔ خود ہی سوال کرے گی اور خود ہی
جواب دے گی پوری کائنات میں آج جواب دینے والا ہی کوئی نہیں ہے۔
لمن الملک۔۔۔ القھار (40: 16) ” آج بادشاہی کس کی ہے ؟ اللہ واحد قہار کی “۔
الیوم تجزٰی۔۔۔۔ الحساب (40: 17) ” آج ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا ، جو اس نے کی تھی ، آج کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے “۔ آج کا دن جزائے حق کا دن ہے۔ آج عدل کا دن ہے ، آج فیصلے اور حکم سنانے کا دن ہے۔ کوئی مہلت کسی کے لیے نہیں اور نہ سست روی ہے۔
فضا پر رعب اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ لوگوں پر خشوع اور خوف طاری ہوجاتا ہے ، تمام مخلوق بات سنتی ہے اور سہم جاتی ہے۔ تمام معاملات طے کردیئے جاتے ہیں اور تمام دفاتر لپیٹ لیے جاتے ہیں ، بڑی تیزی میں ۔ سورت کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں۔
فلایغررک تقلبھم فی البلاد (40: 4) ” شہروں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکہ نہ دے۔ یہاں بتادیا کہ زمین میں ان کی اس چلت پھرت کا ، ان کی سربلندی اور ناحق بڑائی کا ، ان کی جباری وقہاری کا ، اور ان کی دولت وسازو سامان کا یہ انجام ہے کہ مارے خوف کے سہمے ہوئے ہیں ، بات تک نہیں کرسکتے۔
اب روئے سخن حضور اکرم ﷺ کی طرف مڑجاتا ہے کہ اپنی قوم کو اس سخت دن سے ڈرائیں ۔ ایک منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں فیصلے کے اختیارات صرف اللہ کے ہیں ، جبکہ اس سے قبل ان کے اس دن کے حالات حکایتی انداز میں بیان کیے گئے تھے اور اس میں ان کو بات کرنے کی کوئی اجازت نہ تھی۔
0%