undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اس کے بعد بات نبوت اور خصائص نبوت کی طرف چلی جاتی ہے تاکہ اس موضوع کے بعد امانت ودیانت کے بارے میں کچھ ہدایات دی جائیں ‘ مثلاً یہ کہ مال غنیمت میں کسی قسم کی بددیانتی اور چوری سخت معیوب چیز ہے ۔ اور یہ کہ جو شخص بھی اجتماعی امانتوں میں بددیانتی کرے گا وہ اس کا حساب دے گا۔ اور ہر شخص کا حق اسے پورا پورا دیا جائے گا۔

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ

” کسی نبی کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ خیانت کرجائے ……اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا ‘ پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورابدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ “

احد کی پہاڑی اور گھاٹی سے تیراندازوں نے حکم عدولی کرتے ہوئے اپنی جگہ اس لئے چھوڑ دی تھی کہ انہیں یہ خوف دامن گیر ہوگیا تھا کہ شاید بعد میں رسول اللہ ﷺ انہیں کوئی حصہ نہ دیں۔ اس طرح جنگ بدر کے اموال غنیمت میں بعض منافقین نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ غنیمت میں سے کچھ چیزیں غائب ہوگئی ہیں ۔ اور اس سلسلے میں انہیں یہ حیا بھی نہ آئی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا نام لینے سے تو احتراز کریں۔

اس لئے اس آیت میں یہ حکم اور قاطع فیصلہ آگیا کہ حضرت محمد کیا کوئی نبی بھی ہرگز یہ نہیں کرسکتا کہ وہ اموال غنیمت میں سے کوئی چیز ادہر ادہر کردے۔ یعنی مال غنیمت میں سے کوئی چیز علیحدہ رکھ لیں اور یہ کہ وہ بعض فوجیوں کو زیادہ حصہ دیں یا غرض وہ کسی طرح کی کوئی خیانت کریں۔ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ……………” نبی کا یہ کام نہیں کہ وہ مال غنیمت میں کوئی خیانت کرے۔ “

یہ اس کی شان کے خلاف ہے ۔ وہ اس کے مزاج اور طبیعت نبوت کے خلاف ہے۔ وہ اس کے اخلاق کے خلاف ہے کہ ایسا کرے۔ گویا ذات نبوت سے اس فعل کا وقوع ہی ممکن نہیں ہے ۔ یہاں یہ نفی حلت اور حرمت کی نفی نہیں ہے۔ اس لئے کہ نبی کی امانت دار ‘ منصف مزاج اور پاک طبیعت اور مزاج ہی کے خلاف ہے کہ اس سے اس قسم کی کوئی بات وقوع پذیر ہو۔ بعض قرأتوں لفظ یَغُلَّ ہے۔ یعنی مجہول کا فیصلہ آیا ہے ۔ یعنی یہ بات جائز نہیں کہ نبی کے ساتھ خیانت کا برتاؤ کیا جائے ۔ اور اس کے متبعین اس سے کوئی چیز چھپائیں ۔ اس صورت میں یہاں اس بات کی ممانعت ہوگی کہ رسول ﷺ کے ساتھ اس کے پیروکار خیانت نہ کریں اور یہ قرأت آیت کے آخری حصے کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے ۔ حسن بصری (رح) کی تلاوت ایسی ہی تھی ۔

اس کے بعد ان لوگوں کو سخت تنبیہ کی جاتی ہے کہ جس نے خیانت کی مال غنیمت میں یا اور حکومتی اموال میں تو ان کا انجام یہ ہوگا۔

مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ……………” اور جو خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا ‘ پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ “

امام احمد نے ‘ سفیان ‘ زہری ‘ عروہ ‘ ابواحمد ساعدی کی روایت نقل کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص ابن لتبیہ نامی کو زکوٰۃ کا تحصلیدار مقرر فرمایا۔ وہ جب واپس آیا تو کہا یہ مال آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔ اس پر رسول ﷺ ممبرپر کھڑے ہوئے اور یہ تقریر فرمائی :” ان تحصیلداروں کا کیا حال ہے کہ ہم انہیں کام پر لگاتے ہیں اور واپس آکر وہ کہتا ہے کہ یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھا اور انتطار کرتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا یا نہیں۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جو شخص بھی اس مال سے کوئی چیز لے گا ‘ قیامت کے دن وہ اس کے کاندھے پر ہوگی ۔ اونٹ ہوگا اور وہ آواز دے رہا ہوگا ‘ گائے ہوگی اور وہ آواز دے رہی ہوگی اور بکری ہوگی تو بھی وہ ممیا رہی ہوگی ۔ (بخاری مسلم)

اور امام احمد نے اپنی سند کے ذریعہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ ایک دن ہم میں کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے غلول (غنیمت میں سے چوری) کا ذکر کیا ۔ اسے عظیم امر قرار دیا اور اسے بہت ہی بڑا گناہ قراردیا۔ اور فرمایا کہ قیامت کے دن مجھے کوئی ایسا شخص نہ ملے جو آئے اور اس کے کندھوں پر اونٹ ہو اور وہ کہے کہ اے رسول اللہ میری مدد کرو اور میں اسے یہ جواب دوں کہ میں تمہارے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تمہیں پوری طرح پیغام پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے ایسے شخص کو بھی نہ ملوں جس کے کندھوں پر گھوڑا ہو ‘ جو ہنہنارہاہو اور وہ شخص مجھ سے کہے رسول اللہ ﷺ میری امداد کرو اور میں اسے جواب دوں میں تمہارے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں تمہیں پوری طرح تبلیغ کردی تھی اور میں تم میں سے ایسے شخص کو بھی نہ ملوں جس کے کندھوں پر کوئی بےزبان جانور ہو اور وہ کہے رسول اللہ میری امداد کرو اور میں اسے بھی یہ جواب دوں کہ میں اللہ کے ہاں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔ میں نے تمہیں پوری طرح تبلیغ کردی تھی ۔ (بخاری مسلم روایت ابوحیان)

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عدی ابن عمیرہ الکندی سے روایت کی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اے لوگو ! تم میں سے کوئی شخص ہمارے لئے عامل مقرر ہو اور اس نے اس سے ایک سوئی چرائی یا اس سے زیادہ تو وہ چور ہے اور قیامت کے دن وہ اسے لے کر آئے گا۔ “ اس پر انصار میں سے کالے رنگ کا ایک شخص اٹھا (مجاہد کہتے ہیں کہ وہ سعد ابن عبادہ تھے گویا میں اسے اب بھی دیکھ رہا ہوں ) اور کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں اپنے منصب سے مستعفی ہوتا ہوں آپ اپنا کام سنبھالئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوگیا ہے ؟ تو اس نے رسول ﷺ سے کہا میں نے آپ کو یہ اور یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور میں یہ بات اب بھی کہتا ہوں : جسے ہم نے کسی ڈیوٹی پر لگایا تو اس کو چاہئے کہ وہ کم ہو یا زیادہ لے کر آئے ۔ اسے جو کچھ دیا جائے وہ لے لے ۔ اور جو نہ دیا جائے ‘ رک جائے ۔ (مسلم ابوداؤد)

قرآن کریم کی اس آیت اور ان احادیث نے جماعت مسلمہ کی تربیت میں ایک عظیم کردار ادا کیا ۔ یہاں تک کہ اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ۔ ایک ایسا گروہ تیار ہوا ‘ جو نہایت ہی ایمانتدار ‘ دیانتدار اور اموال حکومت کے بارے میں اس قدر محتاط تھا جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔ اور پوری انسانی تاریخ میں کبھی ایسی جماعت تیار نہیں ہوئی ۔ یوں ہوتا کہ ایک عام مسلمان کے ہاتھ میں مال غنیمت میں سے ایک نہایت ہی قیمتی سامان پڑتا اسے کسی نے دیکھا ہی نہ ہوتا اور وہ اسے لاکر امیر کے حوالے کردیتا۔ اور اس کا نفس اسے ‘ اس کے بارے میں کسی طرح بھی بدراہ نہ کرسکتا تھا ۔ محض اس ڈر سے کہ قیامت کے دن اس کی ملاقات نبی ﷺ سے ہو اور اس کی حالت یہ ہو جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اور یہ کہ وہ قیامت کے دن شرمندہ نہ ہو ۔ جس سے اسے نبی ﷺ نے واضح طور پر خبردار کردیا ہے ۔ غرض مسلمانوں کی زندگی یوں تھی کہ فکرآخرت اور خوف آخرت ان کی زندگی کا عملی جزوہوا کرتے تھے ۔ اس کے اس احساس کا حصہ ہوا کرتے تھے اور ان کے تقویٰ ‘ اللہ خوفی اور غایت درجہ احتیاط کا راز ہی یہی تھا ۔ آخرت کا تصور ان کی زندگی میں ایک زندہ تصور تھا ‘ خوابیدہ نہ تھا۔ وہ ایک وعدہ فردانہ تھا۔ وہ ان کے یقین کا حصہ تھا جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ تھی ۔ وہ یہ یقین کرتے تھے کہ ہر کسی کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی ظلم نہ ہوگا۔

ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب مسلمان مدائن میں اترے تو انہوں نے مال غنیمت جمع کیا ۔ ایک شخص آیا اور اس کے پاس کوئی چیز تھی اور اس نے اسے خزانچی کے حوالے کیا۔ اس کے ساتھیوں نے کہا ہم نے اس قدر قیمتی چیز کبھی نہیں دیکھی ۔ ہمارے پاس جو بھی سامان جمع ہوا ‘ وہ اس قدر قیمتی نہیں ہے جس قدر یہ قیمتی چیز ہے ۔ تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا تم نے اس سے کچھ لیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے کچھ نہیں لیا ہے اور اللہ کی قسم اگر اللہ نہ ہوتا تو میں یہ تمہیں لاکر نہ دیتا۔ تب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک غیر معمولی شخص ہے ۔ خزانچی کے ساتھیوں نے پوچھا تمہارا تعارف کیا ہے ؟ تو اس نے کہا میں اپنا تعارف اس لئے نہیں کرتا کہ تم میری تعریف کرتے پھروگے اور نہ دوسرے لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ میرے اس عمل کی تعریفیں کرتے پھریں ‘ میں صرف اللہ کی تعریف کروں گا اور اس کے ثواب کا امیدوار رہوں گا ۔ ان لوگوں نے اس کا پیچھا کیا اور جب وہ اپنے ساتھیوں میں پہنچا تو انہوں نے دیانت کہا کہ وہ ثابت بن عبدقیس ہے ۔ (طبری ج 4 ۔ ص 16)

حضرت عمر کے دور میں جب اموال غنیمت لائے گئے ‘ جنگ قادسیہ کے بعد کا واقعہ ہے تو ان میں کسریٰ کا وہ تاج بھی تھا جسے وہ ایوان شاہی میں بیٹھ کر پہنتا تھا ۔ یہ بہت ہی قیمتی تھا ۔ حضرت عمر نے اسے دیکھا اور کہا کہ قابل قدر ہیں وہ فوجی جنہوں نے اسے خزانہ میں جمع کیا اور کہا :” جس قوم نے یہ تاج لاکر اپنے امیر کو دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ حد درجہ کے امین ہیں۔ “

یہ تھی مسلمانوں کی اسلامی تربیت ‘ یہ اس قدر عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے کہ اس کی داستانیں افسانے معلوم ہوتے ہیں ۔

اب اموال غنیمت اور اموال غنیمت کے اندر خیانت کی اس بحث کے بعد قرآن کریم اسی مناسبت سے اخلاقی قدروں کا ذکر کرتا ہے۔

” بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضاپر چلنے والا ہو ‘ وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا ہو اور جس کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو ‘ جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ اللہ کے نزدیک دونوں قسم کے آدمیوں میں بدرجہا فرق ہے اور اللہ سب کے اعمال پر نظررکھتا ہے ۔ “