آیت نمبر 74 تا 75
اللہ حق بات کہتا ہے اور ہمیشہ حق بات کہتا ہے۔ اس بات کی طرف اس سورت میں مختلف اسالیب میں اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ دو فریق مقدمہ جو دیوار پھلانگ کر داؤد (علیہ السلام) کے پاس برائے فیصلہ پہنچ گئے تھے وہ کہتے ہیں۔
فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط (38: 22) ” ہمارے درمیان حق پر مبنی فیصلہ کرو اور بےانصافی نہ کرو “۔
اللہ اپنے بندے داؤد کو کہتا ہے۔ فاحکم بین الناس بالحق ولاتتبع الھوٰی (38: 26) ” لوگوں کے درمیان حق پر مبنی فیصلہ کرو اور اپنی خواہش کی پیروی نہ کرو “۔ اس کے بعد زمین اور آسمانوں کی تخلیق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ تخلیق حق پر ہوئی ہے۔
وما خلقنا۔۔۔۔ کفروا (38: 27) ” اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو باطل طور پر پیدا نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا “۔ اس کے حق کا تذکرہ اللہ قوی اور عزیز کی زبان پر ہوتا ہے۔
فالحق والحق اقول (38: 84) ” تو حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں “۔
لاملئن۔۔۔۔ اجمعین (38: 85) ” کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان لوگوں سے پھر دوں گا جو ان انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے “۔ یہ ہے معرکہ انسانوں یعنی بنی آدم اور شیطان کے درمیان ۔ یہ معرکہ باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہے۔ اور اللہ نے بھی ان کو ان کا انجام نہایت ہی واضح الفاظ میں بتادیا۔ اور اس وضاحت کے بعد اب لوگ جو راہ اختیار کریں وہ خود ذمہ دار ہوں گے ۔ اللہ کی رحمت کا تقاضا یہ ہوا کہ لوگوں کو بیخبر ی میں نہ پکڑا جائے۔ نہ جہالت میں رکھ کر پکڑلیا جائے۔ اس لیے اللہ نے انبیائے منذرین ان کے پاس بھیجے۔
سبق کے آخر اور سورت کے اختتام پر رسول اللہ ﷺ کو کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو آخری بات صاف طور پر کہہ دی جائے۔