فبئس المھاد (38: 56) وہاں ان کے پینے کے لیے گرم پانی ہے اور قابل نفرت اور قے لانے والا کھانا وہ کھا رہے ہوں گے ۔ یعنی ان کے زخموں کا دھون اور پیپ۔ اس قسم کے کئی دوسرے عذاب ان کے لیے ہوں گے۔ اور ان عذابوں کو ازواج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی ان مذکورہ تلخیوں کے علاوہ دوسری بھی تلخیاں ہوں گی۔
ان دو مناظر کے بعد اب تیسرا دیکھئے جس کے کردار ایک دوسرے سے ہمکلام بھی ہیں۔ اہل جہنم سرکشوں کا ایک گروہ دنیا میں ایک دوسرے کا جگری دوست تھا۔ اب یہ لوگ یہاں ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور نفرت کرنے والے ہیں۔ دنیا میں یہ گمراہی کے ہم سفر تھے۔ یہ مومنین سے اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے۔ مومنین کی دعوت اور ان کے منشور کے ساتھ یہ لوگ مذاق کرتے تھے۔ خصوصاً ان کے اس عقیدے کے ساتھ کہ وہ جنتوں میں ہوں گے جیسا کہ قریش کہتے تھے۔
ء انزل علیه الذکر من بیننا ” کیا ہم میں سے ذکر اسی پر اتر گیا ! “ ذرا ان کے منظر کو دیکھئے کہ یہ فوج در فوج جہنم میں گھسے جارہے ہیں ' یا دھکیلے جارہے ہیں اور ایک دوسرے سے وہ یوں ہمکلام ہیں۔
ھذا فوج مفتحم معکم (38: 59) ” یہ لشکر تمہارے پاس گھسا چلا آرہا ہے “۔ جواب کیا ہے ؟ نہایت ہی تنگ مزاجی سے
جواب آتا ہے۔
لامرحبابھم انھم صالوا النار (38: 59) ” کوئی خوش آمدید ان کے لیے نہیں ہے۔ یہ تو آگ میں جھلسنے والے ہیں “۔ جس فوج پر یہ تبصرہ کیا جارہا ہے ، وہ بھی سن کع جل بھن جاتی ہے اور ان کا جواب یہ ہے ،
قالوابل۔۔۔ القرار (38: 60) ” وہ کہیں بلکہ تمہارے لیے کوئی خوش آمدید نہیں ہے ، تم ہی تو یہ انجام ہمارے آگے لائے ہو۔ کیسی بری ہے یہ جائے قرار “۔ تم ہی تو اس مصیبت کا باعث بنے ہو۔ اب یہ لوگ نہایت دل تنگی ، گھٹن اور انتقام کے جذبات سے مغلوب ہوکر یہ دوخواست کرتے ہیں۔