You are reading a tafsir for the group of verses 38:49 to 38:55
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 213 تشریح آیات

آیت نمبر 49 تا 64

درس ماضی میں ہم اللہ کے مختار بندوں کے ہم محفل تھے۔ ان لوگوں کی زندگی کی آزمائش اور پھر ان کی جانب سے مشکلات پر صبر کا پہلو نمایاں طور پت موضوع سخن تھا۔ آزمائش کے بعد ان سب بندوں کی رحمت اور اس کے فضل و کرم نے ڈھانپ لیا۔ اس محفل ذکر میں ہمیں یہ بتانا مقصود تھا کہ اس کراۂ ارض پر یہ اعلیٰ ترین زندگی ہے اور اس عارضی زندگی کو اس طرح گزرانا چاہئے۔ اب یہاں اس سبق میں یہ بتایا جاتا ہے عالم آخرت میں اللہ کے متقی بندوں کا کیا حال ہوگا اور سرکشوں اور جھٹلانے والوں کے روز شب کیا ہوں گے۔ گویا سابقہ سبق میں حیات فانی موضوع سخن تھا اور اس میں حیات باقیہ کے شب وروز زیر بحث ہیں ۔ یہ زندگی یہاں مناظر کی شکل میں دکھائی گئی جیسا کہ قرآن کریم کا انداز ہے۔ یہاں مناسب ہے کہ میں اپنی کتاب ” مشاہد قیامت “ کے کچھ اقتباسات دے دوں۔

ان مناظر کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ دو مناظر ہیں اور دوانجام ہیں اور ایک دوسرے کے بالکل بالمقابل ہیں۔ مجموعی طور پر بھی ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اور اجزاء کے اعتبار سے بھی یہ دونوں باہم متقابل ہیں۔ ہئیت وشکل اور مفہوم اور خواص کے اعتبار بھی دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ مصبین ایک اچھے انجام تک پہنچ چکے ہیں (حسن مآب) ۔ جبکہ مفسدین برے انجام تک پہنچ چکے (شرمآب) ۔ اگر متقین کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے دروازے ان کے لیے ہر وقت کھلے ہیں۔

جنت عدن مفتحة لھم الابواب (38: 50) اور وہ اس میں بالمقابل تکیے لگائے بیٹھے ہیں اور اچھا کھانا اور اچھا پینا ان کو میسر ہے۔ اور ان کو نوجوان حوریں میسر ہیں اور جوانی کے باوجود وہ شرمیلی بھی ہیں۔ نہ وہ کسی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی ہیں اور نہ اٹھا کر چلتی ہیں اور جوانی کے ساتھ ہم عمر بھی ہیں۔ پھر یہ تمام سہولیات دائمی ہیں اور اللہ کی طرف سے ہیں اور ماله من نفاد ” ختم ہونے والی نہیں ہیں “۔ تو مکذبین بھی ایک جائے قرار میں نظر آتے ہیں۔ یہ بہت ہی بری جائے قرار ہے۔