undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 46 { اِنَّآ اَخْلَصْنٰہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ } ”ہم نے ان کو خالص کرلیا تھا ایک خالص شے ‘ یعنی آخرت کے گھر کی یاد دہانی کے لیے۔“ ان لوگوں کی زندگی کا ایک یہی مقصد تھا کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ اس حوالے سے یہ بات میں بارہا عرض کرچکا ہوں کہ اللہ کا جو بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے دنیا کے مال و دولت اور دوسری چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ زندگی میں اگر اس کا کوئی ہدف ہوتا ہے تو بس یہی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے ‘ انہیں آخرت کے برے انجام سے بچائے۔ پھر اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسی ہدف کے لیے صرف ہوتا ہے اور اس کی تمام تر صلاحیتیں اسی مشن کے لیے وقف ہوجاتی ہیں۔ حضرت شیخ معین الدین اجمیری رح کی مثال لے لیجیے۔ آپ رح یہی مشن لے کر اجمیر پہنچے تھے۔ اجمیر اس زمانے میں ہندو راجپوتوں کا مرکزی شہر اور کفر کا گڑھ تھا۔ حضرت شیخ علی ہجویری رح تو لاہور اس وقت تشریف لائے تھے جب یہ علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوچکا تھا ‘ لیکن حضرت معین الدین رح نے اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنایا جو اس وقت مکمل طور پر کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بہر حال آپ رح اپنا گھر بار چھوڑ کر کوئی کاروبار کرنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے آئے تھے اور یہی آپ رح کی زندگی کا مقصد اور مشن تھا۔